google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Indians to be out of Google

واشنگٹن میں “اے آئی سمٹ” سے خطاب، امریکی کمپنیوں کو بیرون ملک ملازمتیں دینے سے روکا

واشنگٹن ڈی سی: سابق امریکی صدر اور صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر عالمی سطح پر ہلچل مچا دی ہے، اور اس بار ان کے بیانات کا براہ راست نشانہ بھارت کی اربوں ڈالرز کی آؤٹ سورسنگ انڈسٹری اور وہاں کے آئی ٹی پروفیشنلز بنے ہیں۔ واشنگٹن میں منعقدہ ایک اہم “اے آئی سمٹ” (مصنوعی ذہانت کانفرنس) سے خطاب کرتے ہوئے، ٹرمپ نے امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں جیسے گوگل، مائیکروسافٹ اور دیگر کو سخت وارننگ جاری کی ہے کہ وہ بیرون ملک، خاص طور پر بھارت میں، ملازمتیں دینا فوری طور پر بند کریں اور اپنی کمپنیوں میں امریکی شہریوں کو ترجیح دیں۔ ان کے اس بیان کو بھارت کے لیے ایک بڑا جھٹکا قرار دیا جا رہا ہے، جس سے بھارتی آئی ٹی مافیا اور مفادات کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

ٹرمپ کا دوٹوک پیغام: “یہ کھیل اب ختم ہو چکا ہے”

اپنی تقریر میں، جو ان کی “امریکہ فرسٹ” پالیسی کا واضح تسلسل تھی، ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیکنالوجی کی دنیا کے “گلوبلسٹ مائنڈ سیٹ” (عالمی نقطہ نظر) پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ بڑی بڑی ٹیک کمپنیاں امریکی آزادی اور وسائل کا فائدہ اٹھا کر بیرون ملک، خاص طور پر بھارت میں سستے ورکرز بھرتی کرتی ہیں، اپنے منافع کو چین میں فیکٹریاں لگا کر بڑھاتی ہیں، اور ٹیکس سے بچنے کے لیے منافع آئرلینڈ جیسے ممالک میں چھپاتی ہیں۔

ٹرمپ نے اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں کہا، “یہ کھیل اب ختم ہو چکا ہے، صدر ٹرمپ کے تحت ایسی پالیسیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ امریکا کو اولین ترجیح دیں، یہ ہمارا واحد مطالبہ ہے۔” انہوں نے زور دیا کہ “امریکا میں تیار کردہ ٹیکنالوجی کو امریکا کے لیے ہونا چاہیے، نہ کہ بھارتی آئی ٹی مافیا کے مفاد کے لیے۔”

یہ بیانات امریکی نوکریوں کے تحفظ اور ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے ٹرمپ کے دیرینہ وعدوں کی عکاسی کرتے ہیں، جنہیں وہ اپنی آئندہ صدارتی مہم میں بھی ایک کلیدی نکتہ بنائیں گے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ امریکی کمپنیاں جو امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے فائدہ اٹھاتی ہیں، انہیں امریکی ورکرز کو ملازمتیں دینے اور امریکی معیشت میں سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دینی چاہیے۔

نئے ایگزیکٹو آرڈرز اور “ووک” اے آئی پر پابندیاں

ٹرمپ نے اپنے خطاب میں نئے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرنے کا بھی اعلان کیا، جن کا مقصد نہ صرف امریکی ساختہ اے آئی ٹولز کو عالمی سطح پر مقابلے کے قابل بنانا ہے بلکہ اُن تمام کمپنیوں پر بھی پابندیاں عائد کرنا ہے جو وفاقی فنڈنگ لے کر سیاسی نظریات پر مبنی “ووک” (woke) اے آئی بناتی رہی ہیں۔ “ووک” ایک اصطلاح ہے جو سماجی انصاف اور شناخت کی سیاست پر ضرورت سے زیادہ توجہ دینے والے نظریات کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

ٹرمپ نے موجودہ حکومت اور سابقہ انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “سابق حکومت نے تنوع اور شمولیت کے نام پر امریکی ترقی کو روکنے کی کوشش کی۔” ان کا یہ موقف ہے کہ اس قسم کی پالیسیاں ٹیکنالوجی میں امریکی برتری کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یہ اقدامات بائیڈن انتظامیہ کی اس حکمت عملی کے بالکل برعکس ہیں جس میں تنوع اور شمولیت کو ٹیکنالوجی سمیت تمام شعبوں میں فروغ دیا گیا ہے۔ ٹرمپ کی یہ پالیسی خاص طور پر ان کمپنیوں کو متاثر کرے گی جو حکومتی گرانٹس یا ٹھیکوں پر انحصار کرتی ہیں اور جن کے اے آئی ماڈلز میں سماجی تعصبات یا مخصوص سیاسی ایجنڈوں کو شامل کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

“مصنوعی ذہانت” کی اصطلاح کو مسترد

اپنی تقریر کے ایک دلچسپ حصے میں، ٹرمپ نے اے آئی کے لیے عام طور پر استعمال ہونے والی اصطلاح “آرٹیفیشل انٹیلیجنس” (مصنوعی ذہانت) کو بھی مسترد کر دیا۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، “یہ کوئی مصنوعی ذہانت نہیں، یہ ایک ذہانت کا کمال ہے۔” ان کا یہ بیان اگرچہ بظاہر معمولی لگ سکتا ہے، لیکن یہ ان کے اس نقطہ نظر کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ امریکی ٹیکنالوجی کو حقیقی اور بے مثال عظمت کے طور پر دیکھتے ہیں، نہ کہ کسی “مصنوعی” چیز کے طور پر۔ یہ ان کے اس بیانیے کا حصہ ہے جس میں وہ امریکی اختراع اور ذہانت کو عالمی سطح پر بے مثال قرار دیتے ہیں۔

بھارت پر ممکنہ شدید اثرات

ٹرمپ کے ان حالیہ فیصلوں اور سخت بیانات سے بھارت کی اربوں ڈالرز کی آؤٹ سورسنگ انڈسٹری، آئی ٹی ملازمین، اور مجموعی طور پر بھارتی معیشت اور مفادات کو شدید دھچکا پہنچنے کا امکان ہے۔ بھارت کی معیشت کا ایک بڑا حصہ بیرونی ممالک، خاص طور پر امریکہ سے ملنے والے آؤٹ سورسنگ ٹھیکوں اور آئی ٹی سروسز پر منحصر ہے۔ گوگل، مائیکروسافٹ جیسی کمپنیاں بھارت میں ہزاروں کی تعداد میں ملازمین رکھتی ہیں، اور اگر انہیں امریکی شہریوں کو ترجیح دینے پر مجبور کیا گیا تو اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ملازمتوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور بھارت کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

آؤٹ سورسنگ سیکٹر بھارت کی جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈالتا ہے اور لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ اگر امریکی کمپنیاں اپنی آؤٹ سورسنگ کی حکمت عملی پر نظر ثانی کرتی ہیں اور امریکی ورکرز کو ملازمتیں دینا شروع کرتی ہیں، تو اس سے بھارت میں نئی ملازمتوں کی تخلیق بھی متاثر ہو گی اور موجودہ ملازمتوں پر بھی تلوار لٹک جائے گی۔

بھارتی شہریوں کا ردعمل: حکومت کی خارجہ پالیسی پر تنقید

ٹرمپ کے بیانات کے بعد، بھارت میں عوامی سطح پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ بہت سے بھارتی شہری اپنی حکومت پر تنقید کرتے نظر آئے ہیں اور اسے بھارتی خارجہ پالیسی کی ناکامی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اور عوامی مباحث میں یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا بھارتی حکومت امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس طرح سے سنبھالنے میں ناکام رہی ہے کہ اب اس کے شہریوں کی ملازمتیں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔

کچھ ناقدین نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ بھارت نے امریکہ کے ساتھ اپنے دفاعی اور اسٹریٹیجک تعلقات کو مضبوط کیا ہے، لیکن کیا یہ تعلقات معاشی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں؟ یہ صورتحال بھارتی حکومت کے لیے ایک نیا چیلنج بن چکی ہے، جسے نہ صرف داخلی سطح پر عوام کے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ امریکہ کے ساتھ سفارتی سطح پر بھی اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرنی پڑے گی۔

مستقبل کے امکانات

ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی دوڑ اور ان کی پالیسیاں ہمیشہ عالمی سطح پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں، تو ان کی “امریکہ فرسٹ” پالیسیوں کا نفاذ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکی کمپنیاں نہ صرف بیرون ملک ملازمتیں دینے سے گریز کریں گی بلکہ اپنی پیداواری صلاحیتوں کو بھی امریکہ میں منتقل کرنے پر مجبور ہوں گی۔

اس صورتحال میں، بھارت کو اپنی معیشت کے لیے نئے راستے تلاش کرنے پڑیں گے اور دیگر بین الاقوامی مارکیٹوں پر اپنی انحصار بڑھانا پڑے گا۔ یہ شاید بھارت کے لیے ایک موقع بھی ہو کہ وہ اپنی داخلی معیشت کو مضبوط کرے اور ہنر مند نوجوانوں کے لیے اندرون ملک ہی روزگار کے مواقع پیدا کرے۔

ٹرمپ کا یہ اقدام امریکی ٹیکنالوجی سیکٹر میں بھی ایک بحث چھیڑ دے گا، جہاں گلوبلائزیشن اور آؤٹ سورسنگ ایک عام رواج ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ امریکی کمپنیاں ان نئی پالیسیوں پر کس حد تک عمل پیرا ہوتی ہیں اور اس کے عالمی سپلائی چینز پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنی آمد کا اشارہ دے دیا ہے اور ان کے اس بیان نے دنیا بھر کے ممالک، خاص طور پر بھارت کے لیے، تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ آئندہ امریکی انتخابات اور عالمی اقتصادی پالیسیوں میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات