
تہران، ایران: ایران نے لاکھوں افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ڈیڈ لائن کے دن تک ملک چھوڑ دیں یا گرفتاری اور ملک بدری کا سامنا کریں۔ یہ سخت حکم اتوار کی ہدف کی تاریخ کے قریب آنے کے ساتھ جاری کیا گیا ہے، جس سے لاکھوں افراد کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ یہ اقدام اسرائیل کے ساتھ حالیہ 12 روزہ تنازعے کے بعد سکیورٹی پر عوامی خدشات کے درمیان سامنے آیا ہے، جبکہ انسانی ہمدردی کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ بڑے پیمانے پر ملک بدری افغانستان کو مزید غیر مستحکم کر سکتی ہے، جو کہ دنیا کی سب سے غریب قوموں میں سے ایک ہے۔
لاکھوں افغان مہاجرین کا مستقبل داؤ پر
ایران ایک اندازے کے مطابق 40 لاکھ افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کا گھر ہے، جن میں سے بہت سے لوگ وہاں کئی دہائیوں سے مقیم ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کئی نسلوں سے ایران میں رہ رہے ہیں، اور ان کے پاس ایران میں قانونی حیثیت کے مناسب دستاویزات نہیں ہیں۔ ایران کی حکومت نے 2023 میں غیر ملکیوں کو نکالنے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا تھا، جس کے مطابق وہ ملک میں “غیر قانونی طور پر” رہ رہے تھے۔ اس مہم کا مقصد ملک میں غیر دستاویزی تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کنٹرول کرنا تھا۔
مارچ میں، ایرانی حکومت نے باقاعدہ حکم جاری کیا تھا کہ بغیر رہنے کے حق والے افغان اتوار تک رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑ دیں ورنہ انہیں ملک بدری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ حکم ایک واضح پیغام تھا کہ ایران اپنی سرحدی پالیسیوں اور غیر ملکیوں کی رہائش کے قوانین کو سختی سے نافذ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سکیورٹی خدشات اور انسانی ہمدردی کے انتباہات
یہ ڈیڈ لائن ایسے وقت میں قریب آئی ہے جب اسرائیل کے ساتھ ایران کے حالیہ 12 روزہ تنازعے کے بعد ملک میں سکیورٹی پر عوامی خدشات بڑھ گئے ہیں۔ حکام کا خیال ہے کہ غیر دستاویزی تارکین وطن سکیورٹی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، اور اس لیے ان کی ملک بدری کو ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم، اس اقدام کے انسانی اور علاقائی اثرات پر گہرے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
انسانی ہمدردی کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ملک بدری افغانستان کو مزید غیر مستحکم کر سکتی ہے۔ افغانستان پہلے ہی کئی دہائیوں کے تنازعات، غربت، اور قدرتی آفات کی وجہ سے شدید انسانی بحران کا شکار ہے۔ لاکھوں افراد کی اچانک واپسی افغانستان کے پہلے سے کمزور بنیادی ڈھانچے اور معیشت پر مزید بوجھ ڈالے گی، جس سے وہاں کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے مائیگریشن (IOM) نے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انخلا کی موجودہ صورتحال: اعداد و شمار
ایرانی حکومت کے حکم کے بعد سے، 700,000 سے زیادہ افغان رضاکارانہ طور پر یا ملک بدری کے ذریعے ایران چھوڑ چکے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے جو ایران کی پالیسی کے نفاذ کی رفتار کو ظاہر کرتی ہے۔ لاکھوں دیگر افغانوں کو بھی بے دخلی کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے مائیگریشن (IOM) کے مطابق، صرف جون میں 230,000 سے زیادہ لوگ ایران سے روانہ ہوئے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انخلا کا عمل تیزی سے جاری ہے اور اس کے وسیع پیمانے پر انسانی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ افغان مہاجرین زیادہ تر پیدل یا محدود وسائل کے ساتھ افغانستان واپس جا رہے ہیں، جہاں انہیں رہائش، خوراک، اور روزگار کے شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔
ایران کی پالیسی کا پس منظر
ایران میں افغان مہاجرین کی ایک طویل تاریخ ہے۔ افغانستان میں کئی دہائیوں کے تنازعات، خاص طور پر 1979 میں سوویت حملے اور اس کے بعد کی خانہ جنگی نے لاکھوں افغانوں کو ایران اور پاکستان جیسے پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔ ایران نے ان مہاجرین کو پناہ دی اور انہیں تعلیم، صحت، اور روزگار کے مواقع فراہم کیے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں، ایران نے اپنی مہاجرین کی پالیسی پر نظر ثانی کی ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں:
- اقتصادی دباؤ: ایران کو بین الاقوامی پابندیوں اور اندرونی اقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے وہ مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو مزید برقرار رکھنے میں مشکلات محسوس کر رہا ہے۔
- سکیورٹی خدشات: ایران کا دعویٰ ہے کہ غیر دستاویزی تارکین وطن سکیورٹی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، خاص طور پر علاقائی کشیدگی کے تناظر میں۔
- پانی کی قلت اور ماحولیاتی مسائل: ایران کو پانی کی شدید قلت اور ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے، اور بڑھتی ہوئی آبادی ان چیلنجز کو مزید بڑھا رہی ہے۔
- روزگار کے مواقع: ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین مقامی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع کم کر رہے ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر، ایران نے غیر دستاویزی تارکین وطن کو ملک سے نکالنے کی مہم شروع کی ہے۔
افغانستان پر ممکنہ اثرات
افغانستان پر اس بڑے پیمانے پر ملک بدری کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں:
- انسانی بحران میں اضافہ: لاکھوں افراد کی واپسی سے افغانستان میں پہلے سے موجود انسانی بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ انہیں خوراک، پانی، رہائش، اور طبی سہولیات کی شدید کمی کا سامنا ہوگا۔
- اقتصادی بوجھ: افغانستان کی معیشت پہلے ہی کمزور ہے اور اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس سے بے روزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔
- سماجی مسائل: اچانک بڑی تعداد میں لوگوں کی واپسی سے سماجی ڈھانچے پر دباؤ بڑھے گا اور نئے سماجی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
- سکیورٹی کے چیلنجز: معاشی بدحالی اور سماجی بے چینی سکیورٹی کے چیلنجز کو مزید بڑھا سکتی ہے۔
- بین الاقوامی امداد کی ضرورت: افغانستان کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی جانب سے فوری اور وسیع امداد کی ضرورت ہوگی۔
بین الاقوامی برادری کا کردار
بین الاقوامی برادری کو اس صورتحال پر فوری توجہ دینے اور ایران اور افغانستان دونوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
- ایران کے ساتھ بات چیت: ایران کے ساتھ بات چیت کی جائے تاکہ ملک بدری کے عمل کو منظم اور انسانی بنیادوں پر بنایا جا سکے، اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کمزور افراد کو تحفظ حاصل ہو۔
- افغانستان کے لیے امداد: افغانستان کو انسانی امداد، ترقیاتی منصوبوں، اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے فوری اور طویل مدتی امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ واپس آنے والوں کو جذب کر سکے۔
- علاقائی تعاون: علاقائی ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دیا جائے تاکہ مہاجرین کے مسئلے کا ایک جامع اور پائیدار حل تلاش کیا جا سکے۔
- پناہ گزینوں کے حقوق: پناہ گزینوں کے بین الاقوامی حقوق اور اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے۔
نتیجہ: ایک پیچیدہ انسانی بحران
ایران کا لاکھوں افغان مہاجرین کو ملک چھوڑنے کا حکم ایک پیچیدہ انسانی بحران کو جنم دے رہا ہے۔ اگرچہ ایران کو اپنے سکیورٹی اور اقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن اس بڑے پیمانے پر ملک بدری کے افغانستان اور خطے پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
یہ صورتحال بین الاقوامی برادری کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ مہاجرین کا مسئلہ صرف ایک ملک کا نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس کے لیے مشترکہ کوششوں اور انسانی ہمدردی پر مبنی حل کی ضرورت ہے۔ امن، استحکام، اور انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بناتے ہوئے ہی اس چیلانچ سے مؤثر طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ تمام فریقین مل کر ایک ایسا راستہ تلاش کریں گے جو اس انسانی بحران کو کم کر سکے اور متاثرہ افراد کو ایک بہتر مستقبل فراہم کر سکے۔