
دوحہ، قطر: قطر اور مصر کی ثالثی میں جاری اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی مذاکرات کا پہلا مرحلہ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا ہے۔ حماس نے جنگ بندی معاہدے کے لیے اپنے مطالبات سے ثالثوں کو آگاہ کر دیا ہے، جن میں غزہ میں امدادی ٹرکوں کے داخلے میں اضافہ، رفح کراسنگ کا کھولنا، فلسطینیوں کے علاج کے لیے بیرون ملک سفر، اور اسرائیلی فوج کی جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر واپسی شامل ہے۔ یہ مذاکرات، جو فریقین کے درمیان براہ راست ملاقات کے بغیر علیحدہ کمروں میں پیغامات کے تبادلے کے ذریعے ہو رہے ہیں، غزہ میں جاری انسانی بحران اور کشیدگی کے خاتمے کے لیے انتہائی اہم سمجھے جا رہے ہیں۔
جنگ بندی مذاکرات کا پس منظر اور موجودہ صورتحال
غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کو روکنے کے لیے قطر میں جنگ بندی معاہدے کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ مذاکرات ایک پیچیدہ عمل کا حصہ ہیں جہاں دونوں فریقین براہ راست ملاقات سے گریز کر رہے ہیں اور اپنے مطالبات اور پیغامات قطری اور مصری ثالثوں کے ذریعے ایک دوسرے تک پہنچا رہے ہیں۔ یہ طریقہ کار مذاکرات کو سست روی کا شکار بناتا ہے لیکن فریقین کے درمیان اعتماد کی شدید کمی کے پیش نظر اسے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
مذاکرات کا پہلا مرحلہ کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گیا ہے، جو غزہ میں جاری انسانی صورتحال اور خطے میں امن کی امیدوں کے لیے ایک دھچکا ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے جنگ بندی کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود، فریقین اپنے موقف پر قائم نظر آتے ہیں۔
حماس کے اہم مطالبات: انسانی امداد اور فوجی انخلا
حماس نے جنگ بندی معاہدے کے لیے اپنے مطالبات کو واضح طور پر پیش کیا ہے، جو بنیادی طور پر غزہ میں انسانی صورتحال کی بہتری اور اسرائیلی فوجی انخلا پر مرکوز ہیں۔ حماس کے اہم مطالبات درج ذیل ہیں:
- غزہ میں امدادی ٹرکوں کا داخلہ: حماس نے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں روزانہ 400 سے 600 امدادی ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دی جائے۔ غزہ میں انسانی امداد کی شدید قلت ہے، اور یہ مطالبہ وہاں کے لاکھوں متاثرین کے لیے خوراک، پانی، ادویات، اور دیگر ضروری سامان کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔
- رفح کراسنگ کا کھولنا: رفح کراسنگ، جو غزہ کو مصر سے جوڑتی ہے، انسانی امداد اور لوگوں کی نقل و حرکت کے لیے ایک اہم راستہ ہے۔ حماس نے اس کراسنگ کو مستقل طور پر کھولنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ انسانی امداد کی بلاتعطل فراہمی ہو سکے اور لوگ ضرورت کے مطابق غزہ سے باہر جا سکیں۔
- فلسطینیوں کا علاج معالجے کے لیے بیرون ملک سفر: حماس نے مطالبہ کیا ہے کہ 20,000 فلسطینیوں کو علاج معالجے کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔ غزہ میں صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، اور ہزاروں زخمیوں اور بیماروں کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہے جو غزہ میں دستیاب نہیں ہے۔
- اسرائیلی فوج کی جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر واپسی: حماس نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ میں جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلی جائے۔ اس کا مطلب غزہ کے ان علاقوں سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا ہے جہاں اس نے جنگ کے دوران پیش قدمی کی ہے۔
- فلاڈیلیفیا کوریڈور کا انخلا: حماس نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیلی فوج فلاڈیلیفیا کوریڈور کو خالی کرے۔ فلاڈیلیفیا کوریڈور غزہ اور مصر کی سرحد پر واقع ایک بفر زون ہے، جس پر اسرائیل نے حال ہی میں کنٹرول حاصل کیا ہے۔ حماس اس علاقے سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ کر رہی ہے۔
- لڑائی کے دوبارہ آغاز نہ ہونے کی ٹھوس ضمانت: حماس نے مطالبہ کیا ہے کہ مذاکرات کے مکمل ہونے تک لڑائی کے دوبارہ آغاز نہ ہونے کی ٹھوس ضمانت دی جائے۔ یہ حماس کے لیے ایک اہم سکیورٹی مطالبہ ہے تاکہ مستقبل میں کسی بھی اسرائیلی حملے سے بچا جا سکے۔
قیدیوں کا تبادلہ: حماس کی اہم شرط
حماس نے آئندہ جنگ بندی کے لیے فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ حماس نے خاص طور پر تین اہم فلسطینی قیدیوں – مروان برغوتی، عبداللہ برغوتی، اور احمد سعادت – کے تبادلے کا مطالبہ کیا ہے۔
- مروان برغوتی: فلسطینی فتاہ تحریک کے ایک اہم رہنما ہیں جو اسرائیل میں قید ہیں۔
- عبداللہ برغوتی: انہیں اسرائیلی عدالت نے 67 سال قید کی سزا سنائی ہے اور وہ اسرائیلی جیل میں قید ہیں۔ عبداللہ برغوتی کو حماس کے لیے ایک بہت طاقتور اور بہترین جنگی حکمت عملی والے مضبوط مجاہدین میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ انہیں شہید یحییٰ سنوار رحمتہ اللہ علیہ کی طرح اسرائیلی فوج کے دلوں میں خوف بن کر بستا ہوا مانا جاتا ہے۔ ان کی رہائی حماس کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔
- احمد سعادت: پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین (PFLP) کے رہنما ہیں اور اسرائیل میں قید ہیں۔
ان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ حماس کے لیے ایک اہم سیاسی اور علامتی فتح کی حیثیت رکھتا ہے، اور یہ اسرائیلی حکومت کے لیے ایک مشکل فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے۔
مذاکرات کا تعطل اور اس کے اثرات
مذاکرات کا پہلا مرحلہ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان ابھی بھی اہم اختلافات موجود ہیں۔ اسرائیل کے لیے حماس کے تمام مطالبات کو تسلیم کرنا مشکل ہو گا، خاص طور پر فوجی انخلا اور اہم قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے۔ دوسری جانب، حماس بھی اس وقت تک لچک دکھانے کو تیار نہیں جب تک اس کے بنیادی مطالبات پورے نہ ہوں۔
اس تعطل کے غزہ میں انسانی صورتحال پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ جنگ بندی نہ ہونے کی صورت میں، امدادی سامان کی فراہمی مزید مشکل ہو جائے گی، اور لاکھوں فلسطینیوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ عالمی برادری کی جانب سے فوری جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے، لیکن فریقین کے درمیان اعتماد کی کمی اور سخت موقف کی وجہ سے پیش رفت مشکل ہے۔
علاقائی اور بین الاقوامی رد عمل
جنگ بندی مذاکرات کی ناکامی پر علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ، امریکہ، اور یورپی یونین سمیت کئی ممالک نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ لچک دکھائیں اور ایک پائیدار جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔
مصر اور قطر، جو اس مذاکراتی عمل میں اہم ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں، بھی فریقین کے درمیان خلیج کو پاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان ممالک کا موقف ہے کہ غزہ میں انسانی بحران کو حل کرنے اور خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے جنگ بندی ناگزیر ہے۔
مستقبل کے امکانات
مذاکرات کا پہلا مرحلہ ناکام ہونے کے باوجود، جنگ بندی کی کوششیں مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہیں۔ ثالثی کرنے والے ممالک اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے دباؤ جاری رہے گا تاکہ فریقین کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔ مستقبل کے امکانات میں شامل ہیں:
- مزید لچک: دونوں فریقین کو اپنے مطالبات میں کچھ لچک دکھانی پڑ سکتی ہے تاکہ ایک درمیانی راستہ تلاش کیا جا سکے۔
- مرحلہ وار معاہدہ: ممکن ہے کہ ایک جامع معاہدے کے بجائے مرحلہ وار معاہدہ کیا جائے، جس میں پہلے انسانی امداد اور قیدیوں کے تبادلے جیسے فوری مسائل کو حل کیا جائے، اور پھر فوجی انخلا اور دیگر طویل مدتی مسائل پر بات چیت کی جائے۔
- بین الاقوامی ضمانتیں: کسی بھی معاہدے کے نفاذ کے لیے بین الاقوامی ضمانتوں کی ضرورت ہو سکتی ہے تاکہ دونوں فریقین کو معاہدے کی پاسداری پر مجبور کیا جا سکے۔
یہ جنگ بندی مذاکرات صرف غزہ کے لیے نہیں بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے اہم ہیں۔ ان کی کامیابی یا ناکامی مشرق وسطیٰ کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔
نتیجہ: امن کی راہ میں رکاوٹیں اور امید کی کرن
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی مذاکرات کا پہلا مرحلہ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو جانا ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ حماس کے مطالبات، جو غزہ میں انسانی بحران کے حل اور اسرائیلی فوجی انخلا پر مرکوز ہیں، اسرائیلی موقف کے ساتھ شدید تضاد رکھتے ہیں۔ عبداللہ برغوتی جیسے اہم قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی مذاکرات کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔
اس تعطل کے باوجود، قطر اور مصر کی ثالثی میں کوششیں جاری ہیں، اور یہ امید باقی ہے کہ کسی نہ کسی مرحلے پر فریقین ایک پائیدار جنگ بندی تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ غزہ میں لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیاں اس جنگ بندی پر منحصر ہیں، اور عالمی برادری کو اس انسانی بحران کو حل کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔ امن کی راہ میں رکاوٹیں بہت ہیں، لیکن انسانی ہمدردی اور سفارت کاری کی امید کی کرن ابھی بھی موجود ہے۔