
رپورٹ:
عالمی منظر نامے پر اسرائیل کو اس وقت ایک شدید میڈیا بحران کا سامنا ہے، جس کا اعتراف خود اسرائیلی وزارت خارجہ نے کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عالمی میڈیا میں اسرائیل کی پوزیشن پہلے کبھی اتنی خراب نہیں تھی، اب اس کی صورتحال مزید بگڑ چکی ہے، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے سفارتی اور میڈیا کے ادارے اس صورتحال کے سامنے بے بس ہو چکے ہیں۔ یہ میڈیا بحران نہ صرف اسرائیل کی بین الاقوامی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ اس کی سفارتی کوششوں کو بھی ناکام بنا رہا ہے۔ یہ صورتحال اس لیے زیادہ تشویشناک ہے کہ اس میڈیا بحران کے ساتھ ساتھ زمین پر ایسے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں جو اسرائیل کے منفی تاثر کو مزید تقویت دے رہے ہیں۔
میڈیا کے محاذ پر مکمل ناکامی کا اعتراف
اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک حالیہ بیان میں اس بات کا واضح طور پر اعتراف کیا ہے کہ عالمی میڈیا میں ان کی صورتحال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ اس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ وزارت کے مطابق، “ہم سیاسی طور پر میڈیا سے غائب ہو چکے ہیں،” جس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کا بیانیہ اب عالمی میڈیا میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ جو بھی پیغام وہ پہنچانا چاہتے ہیں، وہ یا تو سنا نہیں جاتا یا اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی میڈیا کی آواز کوئی نہیں سنتا، اور ہر کوئی ان کے خلاف ہو چکا ہے۔
اس اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل، جو ایک طویل عرصے سے ایک منظم اور طاقتور میڈیا مشینری کے ذریعے اپنا بیانیہ پیش کرتا رہا ہے، اب اس محاذ پر مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ اس کی میڈیا کی کوششوں پر عالمی سطح پر اعتماد ختم ہو چکا ہے، اور اس کا ہر پیغام شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس بے بسی کا نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل کے سفارتخانے، جو بین الاقوامی سطح پر اس کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں، اس خراب صورتحال کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ وہ عالمی رائے عامہ کو تبدیل کرنے میں ناکام ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ ان کی کوششوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ یہ صورتحال اسرائیل کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے، جو اس کی بین الاقوامی تنہائی میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔
غزہ میں امدادی سامان کی راہ میں رکاوٹ
اس میڈیا بحران کی ایک بڑی وجہ اسرائیل کی زمینی کارروائیاں اور پالیسیاں ہیں، جو اس کے بیانیے سے متصادم ہیں۔ ایک طرف اسرائیلی وزارت خارجہ اپنی ساکھ کے بحران کا رونا رو رہی ہے، اور دوسری طرف قابض اسرائیلی ناجائز آباد کار، قابض اسرائیلی فوج کے ہمراہ، غزہ کی پٹی کی طرف جانے والے امدادی سامان کے ٹرکوں کے گزرنے میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ یہ اقدام غزہ کے عوام کی انسانیت سوز صورتحال کو مزید خراب کر رہا ہے، جو پہلے ہی خوراک، پانی اور طبی امداد کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج کی موجودگی میں ناجائز آباد کاروں کی طرف سے امدادی ٹرکوں کو روکنا بین الاقوامی قوانین اور انسانیت کے اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ یہ واقعات، جب عالمی میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں، تو اسرائیل کے انسانی حقوق کے دعوؤں کو جھٹلاتے ہیں۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ اسرائیلی حکومت کے بیانات اور اس کی کارروائیوں میں ایک گہرا تضاد موجود ہے، جس کی وجہ سے اس کی میڈیا میں ساکھ ختم ہوتی جا رہی ہے۔
الجزیرہ ٹی وی کے دفتر پر اسرائیلی فوج کا حملہ
میڈیا کے ساتھ اسرائیل کی کشیدگی کا ایک اور ثبوت حالیہ واقعہ ہے جہاں اسرائیلی فوج نے قابض راملہ میں الجزیرہ ٹی وی کے دفتر کو 60 روز کے لیے بند کر دیا ہے۔ الجزیرہ ایک معروف عالمی نیوز نیٹ ورک ہے جو فلسطینی علاقوں سے رپورٹنگ کرتا ہے اور اکثر اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید کرتا ہے۔ اس کے دفتر کو بند کرنا پریس کی آزادی پر براہ راست حملہ ہے اور یہ ایک پیغام دیتا ہے کہ اسرائیل ان میڈیا اداروں کو برداشت نہیں کرے گا جو اس کے خلاف رپورٹنگ کرتے ہیں۔
یہ اقدام، ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل کو عالمی میڈیا میں اپنی ساکھ بچانے کی اشد ضرورت ہے، ایک خودکش قدم کے مترادف ہے۔ الجزیرہ جیسے ادارے کو خاموش کرانے کی کوششیں عالمی رائے عامہ کو اسرائیل کے خلاف مزید برانگیختہ کرتی ہیں اور اس تاثر کو تقویت دیتی ہیں کہ اسرائیل سچ کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل میڈیا بحران کا سامنا کرنے کے بجائے، تنقیدی آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے، جو اس کی صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے۔
خلاصہ
مجموعی طور پر، یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ اسرائیل ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اس کی میڈیا میں ناکامی اس کی زمینی کارروائیوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ناجائز آباد کاروں کا امدادی ٹرکوں کو روکنا، فوجی قوت کا استعمال کرتے ہوئے الجزیرہ جیسے میڈیا اداروں کو خاموش کرانا، اور اپنی ہی وزارت خارجہ کی طرف سے میڈیا کے محاذ پر ناکامی کا اعتراف کرنا، یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک اس کی پالیسیاں انسانیت اور بین الاقوامی قوانین کے ساتھ متصادم رہیں گی، اس وقت تک وہ عالمی میڈیا میں اپنی ساکھ کو بحال نہیں کر سکے گی۔ یہ بحران صرف ایک میڈیا بحران نہیں ہے، بلکہ یہ اسرائیل کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کی ناکامی کا بھی عکاس ہے۔