لاہور ہائیکورٹ نے پاسپورٹ قوانین 2021 کے تحت انتظامیہ کے اختیارات کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے یہ بنیادی قانونی نکتہ طے کیا کہ ذیلی قانون سازی (Rules) کسی صورت بھی قانونِ اصل (Passports Act, 1974) سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ عدالت نے واضح کیا کہ پاسپورٹس ایکٹ 1974 کی دفعہ 8 میں صرف پاسپورٹ کو منسوخ (cancel)، ضبط (impound) یا ضبطی میں لینے (confiscate) کے اختیارات دیے گئے ہیں، جبکہ پاسپورٹ کو “Inactivate” کرنے کا اختیار قانون میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس کے باوجود Rule 23 کے تحت پاسپورٹ کو غیر فعال کرنا نہ صرف قانونی دائرہ اختیار سے تجاوز ہے بلکہ یہ شہریوں کے بنیادی حقوق پر غیر آئینی قدغن بھی ہے، اس لیے عدالت نے اس اختیار کو Ultra Vires قرار دیا۔
عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ پاسپورٹ کو Inactivate کرنے کا طریقہ کار درحقیقت Due Process سے بچنے کا ایک غیر رسمی اور خفیہ ذریعہ بن چکا ہے، جس کے نتیجے میں شہریوں کو بغیر نوٹس، بغیر شوکاز اور بغیر سماعت کے ان کے حقِ سفر سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ ایسے اقدامات شہریوں کو ایئرپورٹس پر اچانک ذلت، سماجی رسوائی اور شدید ذہنی اذیت سے دوچار کرتے ہیں، جو قانون، انصاف اور آئین کے منافی ہے۔ عدالت کے مطابق دفعہ 8 میں دیا گیا باقاعدہ قانونی طریقہ کار شفافیت اور احتساب کو یقینی بناتا ہے، جبکہ Rule 23 کے تحت Inactivation انتظامیہ کو من مانی اور غیر جوابدہ اختیارات فراہم کرتا ہے۔
اسی طرح عدالت نے Passport Control List (PCL) میں کسی شخص کا نام پانچ سال یا اس سے زائد مدت تک رکھنے سے متعلق Rule 22(2)(c) کا بھی تفصیلی جائزہ لیا اور یہ قرار دیا کہ ایسی پابندی کے لیے نہ تو کسی واضح قانونی بنیاد کا تعین کیا گیا ہے اور نہ ہی خلاف ورزی کی نوعیت کے مطابق کوئی درجہ بندی موجود ہے۔ عدالت کے نزدیک ایک ہی مدت کی پابندی کو ہر قسم کی مبینہ خلاف ورزی پر لاگو کرنا، خواہ وہ معمولی غیر قانونی قیام ہو یا سنگین جرائم، منصفانہ، معقول اور متناسب نہیں ہے بلکہ یہ اختیار کے ناجائز اور من مانے استعمال کے مترادف ہے۔
عدالت نے اس اصول کو بھی دوٹوک الفاظ میں بیان کیا کہ حقِ سفر شہری آزادی کا لازمی جزو ہے اور اس پر کوئی پابندی صرف اسی وقت لگائی جا سکتی ہے جب وہ قانون کے مطابق، معقول، شفاف اور تناسب (Proportionality) کے اصول پر پوری اترتی ہو۔ غیر معینہ یا طویل مدت کی پابندیاں، جن کے لیے کوئی واضح معیار یا رہنمائی فراہم نہ کی گئی ہو، Unguided Discretion کے زمرے میں آتی ہیں جو بالآخر Arbitrariness میں تبدیل ہو جاتی ہے اور قانون میں ناقابلِ قبول ہے۔
مزید برآں عدالت نے واضح کیا کہ اگرچہ اصل قانون سازی کے مقاصد پر عدالت سوال نہیں اٹھاتی، تاہم ذیلی یا تفویض شدہ قانون سازی (Delegated Legislation) اگر قانونِ اصل کے مقصد، دائرہ اختیار یا آئینی حقوق سے متصادم ہو تو وہ عدالتی نظرِثانی کے دائرے میں آتی ہے۔ موجودہ معاملے میں عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاسپورٹ قوانین 2021 کی مذکورہ شقیں قانونِ اصل سے متجاوز ہیں اور شہری حقوق کو غیر متناسب طور پر محدود کرتی ہیں، اس لیے انہیں برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔
بالآخر عدالت نے قرار دیا کہ Rule 23 کے تحت پاسپورٹ Inactivate کرنے کا اختیار اور Rule 22(2)(c) کے تحت پانچ سال یا زائد مدت کی پابندی دونوں قانوناً کالعدم ہیں۔ وفاقی حکومت کو ہدایت دی گئی کہ وہ تیس دن کے اندر قوانین کو پاسپورٹس ایکٹ 1974 کے مطابق ہم آہنگ کرے، جبکہ درخواست گزار کی representation کو دوبارہ زیرِ غور لانے کا حکم دیا گیا۔ یہ فیصلہ شہری آزادیوں، قانونی طریقہ کار اور انتظامی اختیارات کی حدود کے حوالے سے ایک اہم اور اصولی عدالتی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
