
Naveed Masood Hashmi
نوید مسعود ہاشمی
چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ملک کی ترقی اور کامیابی کے لئے عوام، حکومت اور افواج کے درمیان مضبوط تعلق نا گزیر ہے خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سر پرست ہندوستان ہے ہم ہندوستان کو واضح پیغام دیتے ہیں کہ پاکستان نے نہ پہلے ہندوستان کی اجارہ داری قبول کی اور نہ کبھی کرے گا ۔ جمعہ کو آئی ایس پی آر سے جاری بیان کے مطابق فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے 52ویں کامن ٹریننگ پروگرام کے افسران سے خطاب کیا ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں تاہم ان سے ایک ہی تقاضا کرتے ہیں کے وہ ہندوستان کی دہشت گردانہ پراکسیوں فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج کو جگہ نہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنی انفرادی اور علاقائی پہچان سے بڑھ کر پاکستانیت کی پہچان کو اپنائیںہر نظام میں مسائل اور کمزوریاں ہوتی ہیںآپ کا کام ہے کہ کمزوریوں اور منفی قوتوں کو نظام پر حاوی نہ ہونے دیںجو اقوام اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہیں ان کا مستقبل بھی تاریک ہو جا تا ہے ملک سے محبت اور وفاداری اولین اور بنیادی شرط ہے۔ فیلڈمارشل کا کہناتھاکہ ریاست کی تمام اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی کی اساس پاکستان کی انتظامیہ اور سول بیورو کریسی ہے، اس کی بھاری اور اہم ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے۔معرکہ حق میں ریاست کی تمام اکائیوں نے مثالی ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا معرکہ حق میں پاکستان نے کشمیر لائن آف کنٹرول سے لے کر ساحل سمندر تک انڈیا کی بلا جواز جارحیت کے خلاف بہترین جواب دیا اللہ نے معرکہ حق میں ہماری مدد کی کیونکہ ہم حق پر تھے۔
دہشت گردی ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ہے جو اس کا اپنی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر متعصبانہ اور ظالمانہ رویوں کا نتیجہ ہے بحیثیت قوم ہم پاکستانی کبھی بھی ہندوستان کے آگے جھکے ہیں اور نا جھکیں گے۔فیلڈ مارشل حافظ سید عاصم منیر پاک بھارت حالیہ جنگ کے نہ صرف یہ کہ فاتح بلکہ ہیرو بھی ہیں،میری ان سے گزارش ہے کہ جس طرح بھارت کی دہشت گرد ی،سینہ زوری اور ہندو توا شدت پسندی کے خلاف مضبوط بیانیہ ہے،بالکل اسی طرح اندرون ملک فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخواج کے علاہ اسلام آباد ،لاہور، کراچی وغیرہ میں پائی جانے والی ہندوستانی لا بی کے خرکاروں پر بھی کڑی نظر رکھی جائے، ہندوستانی لابی کے یہ خرکار اداکاراں اور فنکاروں کی شکل میں ہوں یا انہوں نے دانشوروں ،قلمکاروں،تجزیہ کاروں کے روپ دھار رکھے ہوں،ان بھارتی لابی کے خرکاروں نے این جی آوز کی آڑ لے رکھی ہو،یا کسی ترقی پسند شاعر کا اپنے نام کے ساتھ لاحقہ لگا رکھا ہو،ان سب کی گو شمالی کی ضرورت ہے،ہندوستانی ”را”کے گماشتے جس بھی فیلڈ میں ہوں ان سب کو قوم کے سامنے بے نقاب کرنا لازم ہو چکا ہے، کیونکہ بھارت نہ تو پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے سے باز آ رہا ہے اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر کے انسانوں پر ظلم و ستم ڈھانے سے،دہلی کے حکمران مقبوضہ کشمیر کو توبھارت کا ”اٹوٹ انگ” قرار دیتے نہیں تھکتے، کوئی ان سے پوچھے کہ بھارت میں چلنے والی علیحدگی پسند مسلح تحریکیں جوبھارت کا ”انگ” ”انگ”توڑنے میں مصروف ہیں ۔ان علیحدگی پسندوں سے بھارت اپنا وجود کب تک بچا سکے گا؟ انسانی حقوق کی پامالی ، لسانی، نسلی و مذہبی تعصبات کے حوالے سے بھارت کا بر اعظم ایشیا میں پہلا نمبر قرار دے دیا جائے تو بالکل درست ہوگا ، بھارت میں پنجاب ،تامل،ناڈو، بہار، چھتی گڑھ، اڑیسہ، ہما چل پردیش، مہارا شٹر سمیت شمال مشرق میں آسام، ناگا لینڈ، منی پورا اور ترقی پورہ سمیت بھارت میں تقریبا ً67علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، جن میں 17بڑی اور 50چھوٹی ہیں، صرف آسام میں 34 علیحدگی پسند تنظیمیں کام کر رہی ہیں،بتایا جاتا ہے کہ 162 اضلاع پر علیحدگی پسندوں کا مکمل کنٹرول ہے، علیحدگی کی تحریکیں بھارتی حکومت اور ریاست کے لئے بہت بڑا چیلنج بنی ہوئی ہیں۔
ان تحریکوں نے بھارت کے دیگر حصوں آندھرا پردیش اور مغربی بنگال پر بھی اثرات مرتب کئے ہیں، علیحدگی پسند تحریکوں کی منظم عسکری کارروائیوں کے خوف کی وجہ سے بھارتی فوج اور سکیورٹی کے دیگر اداروں کے اہلکار نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں، دوسری جانب بھارت لداخ اور ارونا چل پردیش پرچین کے موقف سے بھی سخت پریشان ہے، علیحدگی کی ان تحریکوں نے بھارت کے ریاستی ڈھانچے کو مفلوج کر رکھا ہے، بھارت میں چلنے والی علیحدگی کی بڑی تحریکوں میں بھارتی پنجاب میں چلنے والی سکھوں کی خالصتان تحریک سر فہرست ہے، 1970 ء میں سکھوں نے اپنے حقوق کے لئے اکالی دل کے نام سے۔ ایک تنظیم قائم کی، ان کامطالبہ تھا کہ حکومت ملک میں سکھوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کو ختم کرے اور انہیں تمام شعبوں میں ہندو اکثریت کے مساوی حقوق دے، لیکن بھارت سرکار نے ان مطالبات پرکان نہیں دھرااور نسلی ومذہبی تعصب کی بنا پر امتیازی سلوک اور زیادیتاں جاری رکھیں۔ سکھوں نے ہندو حکمرانوں کے اس منفی رویے سے مایوس ہو کر 1980 ء میں باقاعدہ مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، بھارتی حکومت نے سکھوں کی اس تحریک کو کچلنے کے لئے ریاستی طاقت کا بھرپور استعمال کیا، لیکن خالصتان تحریک کو پھر بھی کچلا نہیں جا سکا، آخر کار 1984ء میں بھارتی فوج نے امرتسر میں سکھوں کے روحانی مرکز گولڈن ٹمپل پرچڑھائی کر دی، ان کی مذہبی قیادت کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ قتل و غارت کا بازار بھی گرم کیا گیا۔ اسی دوران بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو ان کے 2سکھ محافظوں نے قتل کر دیا، جس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی، جس پر بھارتی فوج نے بڑا آپریشن کر کے اکالی دل و خالصتان تحریک کی قیادت کے خلاف بھرپور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے تحریک کووقتی طور پر دبائو دیا۔ خالصتان کانظریہ آج بھی ناصرف زندہ ہے، بلکہ اپنے حقوق کی خاطر سکھوں کے کئی گروہ بھارت کے خلاف جدوجہد بھی کر رہے ہیں، جن میں ببر خالصہ انٹرنیشنل، خالصتان، زندہ بادفورس، خالصتان کمانڈو فورس، بھنڈرانوالہ ٹائیگرفورس، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی سر فہرست ہیں۔ دوسری اہم تحریک تامل نائوڈو بھی بھارت میں اپنی جڑیں پیوست کر چکی ہے، یہ ابتدا میں ایک لسانی تحریک تھی، بعدمیں قوت پا کر علیحدگی کی جانب مائل ہوئی، اگرچہ تامل بھی ہندو مذہب کے ماننے والے ہیں۔ تاہم یہ تاملی زبان کو ہندی سے معتبرسمجھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ حکومت ہم پر ہندی مسلط کر کے تاملوں کو غلام بنانا چاہتی ہے، یہ قضیہ اولا 1937ء میں سامنے آیا جب کانگریس کی صوبائی حکومت نے مدراس کے سکولوں میں جہاں تاملی بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ ہندی کولازمی تعلیم کا درجہ دیا تھا، جس پر تاملوں نے اپنے بچوں کو ہندی پڑھانے سے انکار کردیا تھا۔
تقسیم ہند کے بعد 1950 ء کے عشرے میں تاملوں کا احتجاج وسعت اختیار کر گیا، جس پرحکومت نے تشدد کا راستہ اپنا کر ان کی تحریک کو کچلنے کی بڑی کوششیں کیں،تاملوں کے ساتھ روا رکھے گئے انسانیت سوز مظالم کے ردعمل میں یہ لسانی تحریک 1968ء میں باقاعدہ بھارت سے علیحدگی کی تحریک میں تبدیل ہو گئی، تامل نیشنل ریٹریول ٹروپس ان کا علیحدگی پسند گرو ہ ہے، جو اپنے حقوق کے حصول کے لئے مسلح جدوجہد پریقین رکھتا ہے، بھارت اور اس سے ملحق تامل زبان بولنے والے علاقوں میں یہ تحریک اب بھی پوری شدت سے جاری ہے۔بھارت کے نقشے پر نظر ڈالیں تو شمال مشرق کی جانب سات ریاستوں پر مشتمل ایک پٹی دکھائی دیتی ہے، جسے تاریخی طور پر سیون سسٹرز یعنی سات بہنیں بھی کہاجاتا ہے، جن میں آسام، ناگالینڈ، منی پورا، تری پورہ، میزورام، اروناچل پردیش اور میغالیہ شامل ہیں، ان ریاستوں کو بنگلہ دیش اور بھوٹان نے ڈھانپ رکھا ہے، یہ ریاستیں بھارتی ریاست مغربی بنگال کی ایک پٹی کے ذریعے بقیہ بھارت سے منسلک ہیں، یہ علیحدگی پسند گروہوں کا مرکز تسلیم کی جاتی ہیں، جن میں آسام، ناگالینڈ، منی پورا اور تری پورہ سب سے زیادہ حساس ہیں۔ خالصتان تحریک اس وقت عالمی سطح پر منظم ہو چکی ہے اور مغربی ممالک میں بھارت کو شدید قسم کی مزاحمت دے رہی ہے ، مزے کی بات یہ کہ بھارت میں دہشت گردقرار دئیے گئے سکھ راہنما کینیڈا کی پارلیمنٹ کا حصہ رہے ہیں ۔
کینیڈا ، آسٹریلیا اور برطانیہ اس وقت خالصتان تحریک کے بڑے مراکز اور بھارت کے لئے ڈرائونا خواب ہیں ۔ سکھوں نے ایئر انڈیا کا بائیکاٹ کرکے بھارتی ایئر لائن کا بھٹہ ہی نہیں بٹھایا بلکہ کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ سے بھارت کے لئے آپریٹ ہونے والی فلائٹس کو مجبور کردیا تھا کہ وہ اپنے اعلانات ہندی کے بجائے انگریزی اور پنجابی میں کریں ، اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے بجائے پنجاب کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، اسی طرح پنجابی سینما یعنی پنجابی فلموں میں کسی جگہ لفظ بھارت دکھائی نہیں دے گا ، اس کی جگہ پنجاب کو رائج کیا جا رہا ہے ۔ ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ سکھوں نے دنیا بھر میں ریفرنڈم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ، جو بہت بڑی کامیابی کے ساتھ مغربی ممالک میں جاری ہے ، مودی حکومت نے اس کا راستہ روکنے کی بہت کوشش کی مگر ہر جگہ اسے منہ کی کھانا پڑی ۔ حالات بتاتے ہیں کہ سکھ تارکین وطن نے اپنے مقصد کو نہیں چھوڑا اور اب خالصتان کا پھل پک چکا ہے ، کسی بھی وقت بھارت کے وجود پر کاری ضرب لگ سکتی ہے ۔ کشمیر اور خالصتان کی بھارت سے علیحدگی نوشتہ دیوار ہے اور تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل ہے ۔