سرخی: سعودی عرب کا مشرق وسطیٰ میں امن کا نیا روڈ میپ: مستقل فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے کسی بھی قسم کا تعلقات کا معاہدہ مسترد
، سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان (ایم بی ایس) نے ایک دوٹوک اور تاریخی بیان جاری کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جب تک فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے قیام کا کوئی “واضح اور ناقابل واپسی راستہ” موجود نہیں ہوتا، سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل (Normalization) میں آگے نہیں بڑھے گا۔
شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ بیان ایک ایسے نازک موڑ پر سامنے آیا ہے جب خطے میں غزہ کی صورتحال کے باعث تناؤ عروج پر ہے، اور امریکہ سمیت عالمی قوتیں جنگ کے بعد کے منظرنامے میں استحکام لانے کے لیے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کو کلیدی حیثیت دے رہی تھیں۔
پس منظر اور سعودی موقف کی وضاحت
سعودی عرب نے ہمیشہ سے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دو ریاستی حل (Two-State Solution) کو بنیادی شرط قرار دیا ہے۔ سنہ 2002 میں عرب لیگ کی جانب سے پیش کیے گئے عرب امن اقدام (Arab Peace Initiative) کی قیادت سعودی عرب نے ہی کی تھی، جس میں واضح تھا کہ عرب ممالک اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے جب تک وہ 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کر لیتا جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔
محمد بن سلمان کا یہ تازہ ترین بیان دراصل اسی دیرینہ سعودی پوزیشن کی تصدیق اور مزید مضبوطی ہے۔ انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ غزہ میں جاری بحران کے باوجود سعودی عرب اپنے بنیادی اصولوں سے انحراف نہیں کرے گا۔ ان کے اس بیان کو خطے میں امن کے خواہشمندوں اور فلسطینی کاز کی حمایت کرنے والوں کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل پر بڑھتا ہوا دباؤ
اسرائیل اور امریکہ دونوں کی خواہش تھی کہ سعودی عرب، جو کہ خلیج تعاون کونسل (GCC) کا سب سے بڑا ملک اور مسلم دنیا کا مرکز ہے، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے۔ اس اقدام کو خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے ایک سٹریٹجک اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
تاہم، ولی عہد کے اس بیان نے ان تمام قیاس آرائیوں کو ختم کر دیا ہے کہ سعودی عرب غزہ جنگ کے تناظر میں بھی اپنے موقف میں لچک دکھائے گا۔ سعودی عرب کا یہ موقف امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے، جو اس وقت مشرق وسطیٰ میں بڑے سفارتی معاہدے کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Keywords (SEO Optimization): سعودی عرب اسرائیل تعلقات، محمد بن سلمان، فلسطینی ریاست، دو ریاستی حل، عرب امن اقدام، غزہ جنگ، مشرق وسطیٰ، ایم بی ایس، سعودی اسرائیل معاہدہ۔
آزاد فلسطینی ریاست: سعودی وژن کا بنیادی ستون
شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے بیان میں جو “واضح اور ناقابل واپسی راستہ” (Clear and Irreversible Path) کی شرط رکھی ہے، وہ صرف علامتی نہیں ہے بلکہ اس میں ٹھوس اقدامات کا مطالبہ شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ:
- اعتراف اور ڈیڈ لائن: اسرائیل کو نہ صرف ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اصولی طور پر رضامندی ظاہر کرنی ہوگی، بلکہ اس کے لیے ایک واضح ٹائم لائن اور ڈیڈ لائن بھی طے کرنی ہوگی۔
- بستیوں کا خاتمہ: مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی توسیع کو فوری طور پر روکا جائے اور بالآخر ان بستیوں کو ختم کرنے کا عمل شروع کیا جائے۔
- سلامتی کی ضمانت: اس بات کی ضمانت دی جائے کہ فلسطینی ریاست کی سلامتی اور خودمختاری کو یقینی بنایا جائے گا، اور اس کی سرحدیں 1967 سے پہلے کی حدود پر مبنی ہوں گی۔
- مشرقی یروشلم دارالحکومت: ایک آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مشرقی یروشلم کو بنایا جائے، جو کہ تمام عرب اور مسلم ممالک کا متفقہ مطالبہ ہے۔
غزہ جنگ کے بعد کا تناظر
غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی اور انسانی بحران نے عرب دنیا کے عوام میں اسرائیل کے خلاف شدید غم و غصہ پیدا کیا ہے۔ ایسے حالات میں، کسی بھی عرب رہنما کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا سیاسی اور اخلاقی طور پر انتہائی مشکل ہو چکا تھا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ دوٹوک موقف سعودی عرب کو فلسطینی عوام کے ایک مضبوط حامی کے طور پر پیش کرتا ہے اور اندرون ملک بھی ان کی حمایت کو مزید تقویت بخشتا ہے۔
اگرچہ سعودی عرب خطے میں اسرائیل کے ساتھ امن کا خواہشمند ہے، لیکن اس کی قیادت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ امن فلسطینیوں کے حقوق کی قیمت پر نہیں ہو سکتا۔ یہ بیان دراصل ایک توازن قائم کرنے کی کوشش ہے جس میں خطے کا استحکام فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت سے مشروط ہے۔ [تصویر: محمد بن سلمان کا بیان]
خطے کی جیو پولیٹکس پر ممکنہ اثرات
محمد بن سلمان کے اس بیان کے علاقائی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
- دیگر عرب ممالک پر اثر: یہ بیان متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ان عرب ممالک کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہے جنہوں نے پہلے ہی ابراہیم معاہدے (Abraham Accords) کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ سعودی موقف ان ممالک پر بھی دباؤ بڑھائے گا کہ وہ فلسطینی ریاست کی حمایت میں اپنے موقف کو مزید سخت کریں۔
- اسرائیلی سیاست: اسرائیلی حکومت پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کسی قسم کی تجویز پر غور کرے۔ اگرچہ اسرائیل کی موجودہ دائیں بازو کی حکومت دو ریاستی حل کی سخت مخالف ہے، لیکن عالمی اور علاقائی دباؤ کے تحت اسے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا پڑ سکتی ہے۔
- چین اور روس کا کردار: امریکہ کی جانب سے امن عمل میں ناکامی کی صورت میں، روس اور چین جیسی عالمی طاقتیں مشرق وسطیٰ میں اپنا سفارتی کردار بڑھا سکتی ہیں، جو سعودی عرب کے موقف کو تقویت دیں گے۔
نتیجہ:
سعودی ولی عہد کا یہ اعلان مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ ریاض کی سٹریٹجک خواہشات، جن میں ٹیکنالوجی اور اقتصادی ترقی شامل ہے، فلسطینی کاز سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔ دنیا کے سامنے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ علاقائی استحکام کی کلید اب بھی بیت المقدس اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت میں پنہاں ہے۔
