google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Prostitute of Islamabad

ہمارے معاشرے کا کڑو سچ؛
ایک عورت کن مراحل سے گزر کر ایک طوائف کا روپ دھارتی ھے؟؟
اس بارے میں لکھنے کے لئے اسلام آباد کے ایک دوست نے ایک طوائف سے میری ملاقات کے لئے وقت ترتیب دیا ۔لیہ سے اسلام آباد پہنچ کر دوست مجھے ایک گنجان آباد علاقہ کی طرف لیکر چل پڑا۔
تنگ و تاریک گلیوں سے ھوتے ہوئے ایک مکان کے سامنے رک گیا اور دستک دی۔
اندر سے ایک خوب صورت حسینہ نے دروازہ کھولا اور لکھنؤ کی طوائفوں کی طرح اداب بجا لائی۔
دوست مجھے چھوڑ کر واپس چل دیا۔
‏وہ طوائف مجھے لیکر اندر چلی گئی اور صوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ خود سامنے والے صوفہ پر براجمان ہو گئی۔
میں نے ترچھی نظر سے اسکی طرف دیکھا۔
وہ بلا کی حسین تھی ۔
اس نے پانی کا گلاس میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا صاحب آپ کے دوست بتا رہے تھے آپ ایک لکھاری ہو۔
‏میں نے فاخرانہ قسم کی عاجزی اختیار کرتے ہوئے کہا۔
جی بس ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کرتا ہوں۔
اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا طوائف پر لکھنے کے لئے آپ نے لیہ سے اسلام آباد تک کا سفر کیوں کیا ؟ حالانکہ آپ کو لیہ میں بھی سینکڑوں طوائفيں مل سکتی تھیں۔
‏میں نے غصے سے دیکھا۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا اس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا
اور اپنے خوب صورت ہونٹوں سے ایک دائرے کی مانند دھواں چھوڑتے ہوئے کہا۔۔
صاحب آپ بھی لنڈے کے لکھاری لگتے ہو۔
ایک کامیاب لکھاری اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھتا ھے۔
‏اسکی بات سن کر میرے ماتھے پر پسینہ نمودار ہونا شروع ہوا لیکن اسکی اتنی دانشمندانہ گفتگو مجھے حیران کر رہی تھی۔
وہ جیسے جیسے بول رہی تھی ویسے ویسے اسکے گال غصے سے سرخ ہو رہے تھے۔
اس نے پانی کا ایک گھونٹ پیا پھر بولی۔
صاحب جج یہاں انصاف بیچ رہا ہے
‏لیکن قابل نفرت صرف جسم فروش عورت ہے۔
سیاست دان اپنا ضمیر بیچ رہے ہیں
لیکن ان کو آپ لیڈر مانتے ھیں جب کہ ایک مجبور طوائف کی جسم فروشی آپ کو چبھتی ھے۔
یہاں ڈاکٹر موت کا کاروبار کر رہے ھیں
لیکن آپ کی نظر میں وہ مقدس پیشہ ھے۔
یہاں وکیل پولیس رشوت لےکر جھوٹے‏ مقدمات بناتے ہیں اور پولیس جعلی مقابلوں میں قتل عام کرتی ھے
یہاں ملک سے وفاداری کا عہد کرکے شب خون مارے جاتے ہیں۔ یہاں قانون کو جوتے کی نوک پر رکھ کر حکومتیں بنائی اور گرائی جاتی ہیں
یہاں ملک کے وسائل اور کاروبار پر دن دیہاڑے قبضے کیے جاتے ہیں یہاں ملک کو معاشی اپاہج بنایاجاتاہے
یہاں ریاست کے اندر ریاست بنائی جاتی ہے۔
یہاں حق مانگنے والے کو غدار بنایا جاتا ہے
یہاں میڈیا دن کو رات دکھاتا ہے۔ یہاں صحافی اپنا قلم ٹکے ٹکے پر بیچتا ہے
یہاں اساتذہ بچوں کے مستقبل سے کھیلتے ہیں یہاں تعلیم صرف ایک کاروبار ہے
یہاں پیسے سے اوپر سے نیچے تک سب خریدا جاتا ہے
یہاں زندگی کا ہر شعبہ تعفن سے بھرا ہے
لیکن قابل نفرت صرف طوائف ھے، جو اپنے پیٹ کے جہنم کی آگ بجھانے کے لئے اپنا جسم بیچتی ھے۔
اسکی باتیں سن کر میرے ماتھے کی شکنوں پر پسینہ ٹھہر کر قطرہ قطرہ یوں نیچے گر رہا تھا ‏جیسے بارش میں کسی غریب کے کچے مکان کی چھت ٹپکنے لگتی ھے۔
اس نے ٹشو میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا
صاحب!!!
جس معاشرے میں آپ رہتے ھیں وہاں ایک طوائف کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں
‏میں اس کی یہ بات سن کر ہلکا سا مسکرایا اور دل ہی دل میں سوچا کہ ایک طوائف کیسے اپنی جسم فروشی کا دفاع کر رہی ہے۔
اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
اگر ہم طوائفیں ان مرد نما بھیڑیوں کی آگ ٹھنڈی نہ کریں تو یہ بھیڑئے بنت حوا کی معصوم کلیوں کو‏بھی مسل ڈالیں اور انکا گوشت بھی نوچ کر کھا جائیں۔
میں جو دل میں کئی سوال لےکر لیہ سے چلا تھا وہ سب گم ہو چکے تھے۔
وہ مسلسل بول رھی تھی اور میں جو خود کو لکھاری اور دانشور سمجھتا تھا ایک طوائف کی گفتگو کے سامنے لاجواب نظر آ رہا تھا۔
وہ اٹھ کر میرے قریب بیٹھ گئی اور کہا
صاحب! ‏آپ نے کتے کو پانی پیتے ہوئے کبھی دیکھا ھے؟
اس اچانک سوال پر میرے منہ سے ھاں نکلی۔
اس نے سگریٹ کا کش لیکر میری طرف ‏بڑھاتے ہوئے کہا صاحب!!!
اس شہر کے بڑے بڑے لوگ جو مسیحائی کا لبادہ اوڑھ کر آپ جیسوں کو بیوقوف بناتے ھیں جب ہمارے پاس آتے ھیں تو ہمارے پاؤں کے تلوے اس طرح چاٹتے ھیں جیسے کتا پانی پیتا ھے۔
یہ کہہ کر اس نے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھا تو میں خاموشی سے اٹھا اور دروازے کی جانب چل دیا۔
اس نے پیچھے سے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا
صاحب!!!
اگر لکھاری بننا ھے تو جسم فروش طوائفوں پر نہیں بلکہ ضمیر فروش طوائفوں پر لکھا کرو۔ پھر آپ کو لیہ سے اسلام آباد بھی نہیں آنا پڑے گا۔
‏اپنی قلم میں جرات پیدا کرو۔
کچھ غلط تو نہیں بولا اس عورت نے ۔ مجھ سمیت سارے معاشرےکو آئینہ دکھا دیا💯…..

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات