google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Shutdown impacts

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ آج اندرونی سیاسی تعطل اور اہم بین الاقوامی محاذوں پر ایک ساتھ کئی بڑے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ جہاں ایک طرف کانگریس اور وائٹ ہاؤس کے درمیان وفاقی بجٹ پر شدید اختلافات کے باعث حکومت کے جزوی شٹ ڈاؤن کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے، وہیں دوسری طرف جنوبی کوریا کے ساتھ دفاعی اور تجارتی تعلقات میں نیا تناؤ پیدا ہو گیا ہے، جبکہ چین کے صدر ژی جن پنگ کے ساتھ تجارتی جنگ مزید شدت اختیار کر چکی ہے۔ یہ تمام عوامل امریکی پالیسی سازوں اور عالمی منڈیوں کے لیے تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

سیکشن اول: امریکہ میں حکومتی شٹ ڈاؤن کا خطرہ اور سیاسی تعطل

وفاقی حکومت کو چلانے کے لیے فنڈنگ کی مدت قریب الختم ہے اور فریقین کے درمیان کسی نئے بجٹ یا عبوری فنڈنگ بل پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ میں ایک اور حکومتی شٹ ڈاؤن (Government Shutdown) کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کانگریس نے مقررہ وقت تک کوئی حل نہیں نکالا تو بدھ کی شام سے وفاقی ادارے جزوی طور پر بند ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔

بجٹ تعطل کی بنیادی وجوہات

بجٹ کے اس تعطل کی بنیادی وجہ امیگریشن پالیسی اور سرحدوں کی سیکیورٹی پر صدر ٹرمپ اور حزب اختلاف کے ڈیموکریٹس کے درمیان اختلافات ہیں۔ صدر ٹرمپ انتظامیہ سرحدی دیوار کی تعمیر یا امیگریشن نافذ کرنے والے اداروں کے لیے فنڈنگ میں بھاری اضافہ چاہتی ہے، جسے ڈیموکریٹک قیادت مسترد کر رہی ہے۔

صدر ٹرمپ نے ایک حالیہ ٹویٹ میں ڈیموکریٹس پر غیر ضروری رکاوٹیں ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا: “حزب اختلاف ہماری سرحدوں کو محفوظ بنانے اور امریکہ کو پہلی ترجیح دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ اگر ضروری ہوا تو ہم ایک شٹ ڈاؤن کے لیے تیار ہیں تاکہ امریکہ کو اس کے مستحق دفاعی وسائل مل سکیں۔”

شٹ ڈاؤن کے ممکنہ اثرات

اگر شٹ ڈاؤن عمل میں آتا ہے تو اس کے امریکی معیشت اور عوامی خدمات پر فوری اور وسیع اثرات مرتب ہوں گے۔

  • سرکاری ملازمین: ہزاروں وفاقی ملازمین کو بغیر تنخواہ کے کام کرنا پڑے گا یا چھٹی پر بھیج دیا جائے گا۔
  • عوامی خدمات: نیشنل پارکس بند ہو جائیں گے، کچھ ویزا اور پاسپورٹ سروسز سست روی کا شکار ہو جائیں گی، اور کچھ محکموں میں ضروری ریگولیٹری کام رک جائیں گے۔
  • مالی منڈیاں: ماضی کے شٹ ڈاؤنز کی طرح، اس بار بھی امریکی اسٹاک مارکیٹ میں غیر یقینی اور گراوٹ کا سامنا ہو سکتا ہے۔

کانگریس کے اسپیکر نے بھی شٹ ڈاؤن سے بچنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، مگر دونوں فریقین کے سخت موقف کی وجہ سے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ سیاسی مبصرین اسے صدر ٹرمپ کی دوسری مدت کے آغاز پر ایک بڑا انتظامی امتحان قرار دے رہے ہیں۔

سیکشن دوم: جنوبی کوریا کے ساتھ دفاعی تعلقات میں نیا موڑ

ملکی بحران کے ساتھ ساتھ، صدر ٹرمپ انتظامیہ کو جنوبی کوریا کے ساتھ دفاعی تعلقات میں غیر معمولی تناؤ کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، وائٹ ہاؤس نے ایک بار پھر سیول پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ جنوبی کوریا میں تعینات امریکی افواج کے دفاعی اخراجات (Burden Sharing) میں اپنا حصہ کئی گنا بڑھائے۔

اخراجات میں اضافے کا مطالبہ

امریکی حکام نے باضابطہ طور پر جنوبی کوریا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ موجودہ دفاعی معاہدے کے تحت ادا کی جانے والی رقم کو 40 فیصد تک بڑھا دے۔ اس مطالبے نے سیول میں شدید تشویش اور مزاحمت کو جنم دیا ہے۔ جنوبی کوریا کے صدر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکہ کا یہ مطالبہ غیر منصفانہ ہے اور دونوں ممالک کے دیرینہ اتحاد کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ: “ہم شمالی کوریا کے خطرے کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن مالی بوجھ میں یکطرفہ اور غیر معقول اضافہ قبول نہیں کیا جائے گا۔”

معاشی تعلقات پر اثرات

دفاعی معاملات میں اس کشیدگی کا سایہ دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی مذاکرات پر بھی پڑا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک نے تجارتی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے حالیہ برسوں میں کوششیں کی ہیں، تاہم صدر ٹرمپ کی ‘امریکہ فرسٹ’ پالیسی کے تحت، امریکی انتظامیہ جنوبی کوریا پر کچھ مخصوص امریکی مصنوعات کی درآمدات بڑھانے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دفاعی اخراجات کا مسئلہ تجارتی معاہدے کو بھی یرغمال بنا سکتا ہے، جس سے عالمی سپلائی چین متاثر ہو گی۔

سیکشن سوم: چین کے صدر ژی جن پنگ کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تصادم میں شدت

بین الاقوامی محاذ پر سب سے بڑا چیلنج چین کی طرف سے آ رہا ہے۔ صدر ٹرمپ اور چین کے صدر ژی جن پنگ کے درمیان تجارتی جنگ نے آج ایک نیا خطرناک موڑ لے لیا۔ امریکہ نے چین کی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر مزید نئی پابندیاں عائد کی ہیں، جس کا فوری جواب بیجنگ کی طرف سے آیا ہے۔

ٹیکنالوجی اور صنعتی تصادم

امریکی محکمہ تجارت نے چین کی 10 بڑی صنعتی اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ‘انٹیٹی لسٹ’ (Entity List) میں شامل کر دیا ہے، جس سے ان کمپنیوں کے لیے امریکی پرزہ جات اور سافٹ ویئر خریدنا ناممکن ہو گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے الزام لگایا ہے کہ یہ کمپنیاں چینی فوج کو حساس معلومات فراہم کر رہی ہیں اور امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

اس اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے، چینی وزارت خارجہ نے اسے ‘سفارتی غنڈہ گردی’ قرار دیا اور فوری طور پر امریکی زراعت اور توانائی کی مصنوعات پر جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر دیا۔ صدر ژی جن پنگ نے ایک اندرونی اجلاس میں کہا کہ چین امریکی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا اور ملکی خودمختاری اور تکنیکی ترقی کا دفاع کرے گا۔

عالمی معیشت پر شدید دباؤ

امریکی پابندیاں اور چینی جوابی اقدامات نے عالمی سرمایہ کاروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ عالمی اسٹاک مارکیٹیں گراوٹ کا شکار ہیں، کیونکہ تجارتی جنگ کے نتیجے میں عالمی اقتصادی شرح نمو میں کمی کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ آئی ایم ایف (IMF) نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں امریکہ اور چین دونوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد مذاکرات کی میز پر آئیں تاکہ دنیا کو ایک بڑے معاشی بحران سے بچایا جا سکے۔

سیکشن چہارم: سیاسی اور سفارتی مبصرین کا تجزیہ

آج کا دن صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے لیے ایک مشکل ترین دن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جہاں انہیں ایک ساتھ تین بڑے بحرانوں کا سامنا ہے۔

داخلی کمزوری: حکومتی شٹ ڈاؤن کا خطرہ ظاہر کرتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کو کانگریس کے اندر بجٹ کے معاملات پر سخت مزاحمت کا سامنا ہے، جس سے ان کی پالیسیوں پر عمل درآمد میں رکاوٹ آ رہی ہے۔

اتحادیوں سے کشیدگی: جنوبی کوریا پر دفاعی اخراجات بڑھانے کے لیے شدید دباؤ ڈالنا امریکہ کے ایشیائی اتحادیوں کو کمزور کر سکتا ہے اور طویل مدت میں چین کے اثر و رسوخ کو بڑھا سکتا ہے۔ یہ پالیسی امریکہ کے سفارتی اتحاد کو توڑنے کے مترادف ہے۔

چین سے براہ راست ٹکراؤ: چین کے ساتھ تجارتی جنگ کو ٹیکنالوجی اور سیکیورٹی کے میدان میں لے جانا ایک سرد جنگ 2.0 کا آغاز ہو سکتا ہے۔ یہ صرف تجارتی نقصان کا باعث نہیں بنے گا، بلکہ دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان عسکری اور سفارتی کشیدگی کو بھی خطرناک حد تک بڑھا سکتا ہے۔

مجموعی طور پر، صدر ٹرمپ کی “امریکہ فرسٹ” پالیسی جہاں ملکی سطح پر بعض حمایت حاصل کر رہی ہے، وہیں یہ پالیسی عالمی سطح پر غیر یقینی اور عدم استحکام کا سبب بن رہی ہے۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ان تینوں چیلنجز کا فوری اور موثر حل نکالنا امریکی قیادت کے لیے ایک کڑا امتحان ہو گا۔

کلیدی نقاط کا خلاصہ

بحرانی محاذاہم مسئلہفوری اثراتممکنہ حل کی سمت
داخلی سیاستحکومتی شٹ ڈاؤن کا خطرہ (بجٹ تعطل)ہزاروں وفاقی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں رکاوٹ، عوامی خدمات کی جزوی بندش۔صدر ٹرمپ اور ڈیموکریٹس کے درمیان سرحدی فنڈنگ پر جلد از جلد سمجھوتہ۔
جنوبی کوریادفاعی اخراجات میں 40% اضافے کا امریکی مطالبہسیول کی طرف سے شدید مزاحمت، دونوں اتحادیوں کے تعلقات میں تناؤ، تجارتی مذاکرات پر سایہ۔اخراجات کے بوجھ کو مزید معقول بنانے کے لیے مذاکرات کی ضرورت۔
چین کے ساتھ تعلقاتمزید 10 چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر نئی امریکی پابندیاںچین کی طرف سے امریکی زرعی اور توانائی کی مصنوعات پر جوابی ٹیرف کا اعلان، عالمی منڈیوں میں مندی۔اعلیٰ سطح پر تجارتی اور تکنیکی مذاکرات کا دوبارہ آغاز، سیکیورٹی خدشات کا حل۔

یہ رپورٹ آئندہ چند روز میں ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر رکھے گی۔

About The Author

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات