
چارلس بوکوسکی، ایک ایسے شاعر اور ناول نگار تھے جنہوں نے اپنی تحریروں میں انسانی وجود کی تلخ حقیقت اور جدید معاشرے کے تاریک پہلوؤں کو بے نقاب کیا۔ ان کا یہ بیان، “دنیا نے غلامی کے طریقے بدل دیے ہیں، زنجیریں اب لوہے کی نہیں، تنخواہوں، کرایوں اور قرضوں کی ہیں،” ایک گہری حقیقت کی عکاسی کرتا ہے جو آج کے دور میں پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہے۔ یہ جملے ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم اپنے ارد گرد موجود نظام کا بغور جائزہ لیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ کس طرح ایک بظاہر آزاد معاشرہ درحقیقت افراد کو ایک نئی قسم کی غلامی میں جکڑ رہا ہے۔ یہ رپورٹ بوکوسکی کے اس بیان کی گہرائی میں اترے گی، اس کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کرے گی اور یہ بتائے گی کہ کس طرح تنخواہیں، کرائے اور قرضے ہماری زندگیوں کو کنٹرول کر رہے ہیں، ہمیں بقا کے ایک لامتناہی چکر میں پھنسا رہے ہیں، اور حقیقی آزادی سے محروم کر رہے ہیں۔
غلامی کی بدلتی ہوئی شکلیں: لوہے کی زنجیروں سے مالیاتی بیڑیوں تک
تاریخ انسانی میں غلامی کا تصور ہمیشہ سے موجود رہا ہے، جہاں ایک انسان دوسرے انسان کی ملکیت ہوتا تھا اور اسے جبری مشقت پر مجبور کیا جاتا تھا۔ یہ غلامی جسمانی تھی، جہاں غلاموں کو لوہے کی زنجیروں میں جکڑا جاتا، انہیں بیچا اور خریدا جاتا، اور ان کی زندگی پر مکمل طور پر ان کے آقا کا اختیار ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ، انسانی حقوق کی تحریکوں اور سماجی ارتقاء نے اس جسمانی غلامی کا خاتمہ کر دیا، لیکن بوکوسکی کے بقول، غلامی کا تصور ہی ختم نہیں ہوا بلکہ اس نے اپنی شکل بدل لی ہے۔
آج کی دنیا میں، ہم جسمانی طور پر آزاد نظر آتے ہیں۔ ہم اپنی مرضی سے چل پھر سکتے ہیں، اپنی پسند کے پیشے کا انتخاب کر سکتے ہیں، اور اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ بوکوسکی کے بیان کے مطابق، اب ہماری زنجیریں نظر نہیں آتیں، کیونکہ وہ لوہے کی نہیں بلکہ مالیاتی نوعیت کی ہیں۔ یہ زنجیریں تنخواہوں، کرایوں اور قرضوں کی شکل میں ہمارے گرد لپٹی ہوئی ہیں۔ یہ مالیاتی بیڑیاں ہمیں ایک ایسے نظام سے باندھ دیتی ہیں جہاں ہماری آزادی کا تصور صرف ایک سراب بن کر رہ جاتا ہے۔
تنخواہ کی زنجیر: ہم میں سے اکثر لوگ اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے کسی نہ کسی ادارے یا کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ یہ ملازمت ہمیں ایک مقررہ تنخواہ فراہم کرتی ہے، جو ہماری بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ لیکن یہ تنخواہ ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ ایک طرف یہ ہمیں بقا کا ذریعہ فراہم کرتی ہے، تو دوسری طرف یہ ہمیں اس نظام سے جکڑ لیتی ہے۔ ہم اس تنخواہ کے محتاج ہو جاتے ہیں، کیونکہ اس کے بغیر ہم اپنے بل ادا نہیں کر سکتے، اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتے، اور اپنی زندگی کا پہیہ نہیں چلا سکتے۔ یہ تنخواہ ہمیں ایک دائرے میں گھما دیتی ہے جہاں ہم ہر ماہ کام کرتے ہیں تاکہ اگلی تنخواہ حاصل کر سکیں، اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔
کرایوں کا بوجھ: شہروں میں رہنے والے زیادہ تر افراد کے لیے کرایہ ایک بہت بڑا مالی بوجھ ہوتا ہے۔ گھر کا کرایہ، دکان کا کرایہ، گاڑی کا کرایہ – یہ سب ہماری آمدنی کا ایک بڑا حصہ نگل جاتے ہیں۔ کرایہ ادا کرنے کے لیے ہمیں مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ کرایہ ہمیں ایک خاص جگہ پر رہنے پر مجبور کرتا ہے، چاہے ہم وہاں رہنا پسند کریں یا نہ کریں۔ یہ ہمیں اس بات کی آزادی نہیں دیتا کہ ہم اپنی مرضی سے جہاں چاہیں رہ سکیں، یا اپنی آمدنی کو اپنی حقیقی خواہشات پر خرچ کر سکیں۔ کرایہ کی تلوار ہمیشہ ہمارے سر پر لٹکتی رہتی ہے، جو ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنی ملازمت کو برقرار رکھیں اور اس نظام کا حصہ بنے رہیں۔
قرضوں کا جال: جدید دور میں قرضے ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ گھر خریدنے کے لیے قرض، گاڑی خریدنے کے لیے قرض، تعلیم کے لیے قرض، کاروبار کے لیے قرض، اور یہاں تک کہ روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی کریڈٹ کارڈ کے قرضے۔ یہ قرضے ہمیں ایک ایسے جال میں پھنسا دیتے ہیں جہاں ہم اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ سود اور قسطوں کی ادائیگی میں صرف کر دیتے ہیں۔ قرضوں کا یہ جال ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم مزید کام کریں، زیادہ دیر تک کام کریں، اور کبھی بھی اس نظام سے باہر نکلنے کا سوچیں بھی نہیں۔ یہ قرضے ہمیں ایک مستقل دباؤ میں رکھتے ہیں، جہاں ہماری آزادی کا تصور صرف ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ ہم قرضوں کی ادائیگی کے لیے کام کرتے ہیں، نہ کہ اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق جینے کے لیے۔
“اتنا ضرور دیتے ہیں کہ تم بھوکے نہ مرو، مگر اتنا کبھی نہیں دیتے کہ تم آزاد ہو کر جینا شروع کر دو”
بوکوسکی کے بیان کا یہ حصہ جدید غلامی کی سب سے تلخ حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ یہ نظام ہمیں مکمل طور پر محروم نہیں کرتا، بلکہ ہمیں “اتنا کچھ ضرور دیتا ہے کہ تم بھوکے نہ مرو۔” یعنی، ہمیں اتنی تنخواہ مل جاتی ہے کہ ہم اپنا پیٹ بھر سکیں، سر چھپانے کی جگہ مل جائے، اور بنیادی ضروریات پوری ہو جائیں۔ یہ نظام ہمیں بقا کے لیے درکار تمام وسائل فراہم کرتا ہے، لیکن اس کا مقصد ہمیں آزاد کرنا نہیں بلکہ ہمیں اپنے کنٹرول میں رکھنا ہے۔
“مگر اتنا کبھی نہیں دیتے کہ تم آزاد ہو کر جینا شروع کر دو۔” یہ جملہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ہمیں کبھی بھی اتنی مالی آزادی نہیں ملتی کہ ہم اپنی ملازمت چھوڑ کر اپنے خوابوں کی تکمیل کر سکیں، اپنی پسند کا کام کر سکیں، یا اپنی زندگی کو اپنے اصولوں کے مطابق ڈھال سکیں۔ ہمیں ہمیشہ ایک مالیاتی حد میں رکھا جاتا ہے، جہاں ہم صرف “بقا” کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ یہ بقا ہمیں اس نظام سے اس طرح جوڑے رکھتی ہے کہ ہم اس سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم ایک ایسے چوہے کی طرح ہیں جو پہیے پر دوڑتا رہتا ہے، بھوکا نہیں مرتا، لیکن کبھی بھی اس پہیے سے باہر نہیں نکل پاتا۔
یہ حالت ہمیں ذہنی اور جذباتی طور پر بھی متاثر کرتی ہے۔ ہم مستقل دباؤ میں رہتے ہیں، کیونکہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم نے کام کرنا چھوڑ دیا تو ہماری بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ یہ خوف ہمیں اپنے باسز کی بات ماننے، ناپسندیدہ کام کرنے، اور اپنے وقت کو اس طرح صرف کرنے پر مجبور کرتا ہے جو ہماری خواہشات کے خلاف ہو۔ یہ ہمیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو دبانے، اپنے جذبات کو نظر انداز کرنے، اور ایک روبوٹ کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے۔
روزمرہ کی چکی: وقت، توانائی، خواب اور جوانی کی گروی
بوکوسکی کا بیان ہمارے روزمرہ کے معمولات کی ایک دردناک تصویر کشی کرتا ہے: “تم ہر صبح اٹھتے ہو، دفتر جاتے ہو، تنخواہ کے وعدے پر دن بھر اپنا وقت، اپنی توانائی، اپنے خواب، اپنی جوانی قسطوں میں گروی رکھ دیتے ہو۔”
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہم میں سے اکثر لوگ گزرتے ہیں۔ ہر صبح، ایک نئی امید کے ساتھ یا شاید ایک نئی مجبوری کے ساتھ، ہم بستر سے اٹھتے ہیں۔ ہمارا پہلا خیال کام اور دفتر کا ہوتا ہے۔ ہم اپنے دن کا بیشتر حصہ — آٹھ، دس، یا اس سے بھی زیادہ گھنٹے — اپنے کام کی جگہ پر گزارتے ہیں۔ اس دوران ہم کیا کر رہے ہوتے ہیں؟ ہم اپنی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ، یعنی “وقت” کو فروخت کر رہے ہوتے ہیں۔ وقت جو دوبارہ کبھی واپس نہیں آتا۔
اس کے ساتھ ساتھ، ہم اپنی “توانائی” بھی گروی رکھ دیتے ہیں۔ جسمانی توانائی جو ہمیں کام کرنے کے قابل بناتی ہے، اور ذہنی توانائی جو ہمیں سوچنے، تخلیق کرنے، اور مسائل حل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ توانائی دن کے اختتام تک ختم ہو جاتی ہے، اور ہم اتنے تھکے ہوئے ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے خاندان، دوستوں، یا اپنی ذاتی دلچسپیوں کے لیے کچھ بھی نہیں بچتا۔
سب سے دردناک بات یہ ہے کہ ہم اپنے “خواب” اور اپنی “جوانی” کو بھی قسطوں میں گروی رکھ دیتے ہیں۔ جوانی وہ دور ہوتا ہے جب انسان میں سب سے زیادہ توانائی، جوش، اور خواب دیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ لیکن اس نظام میں، ہم اپنی جوانی کا بہترین حصہ اس امید پر گزار دیتے ہیں کہ ایک دن ہمیں آزادی ملے گی، یا ہم اپنے خوابوں کو پورا کر سکیں گے۔ لیکن وہ “ایک دن” کبھی نہیں آتا، کیونکہ ہم مسلسل بقا کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے خواب، جو کبھی روشن اور واضح تھے، دھیرے دھیرے مدھم پڑ جاتے ہیں، کیونکہ ہمارے پاس انہیں پورا کرنے کے لیے وقت، توانائی، یا مالی وسائل نہیں ہوتے۔
یہ سب کچھ کس وعدے پر ہوتا ہے؟ “تنخواہ کے وعدے پر۔” ایک ایسی تنخواہ جو ہمیں صرف اگلی صبح دوبارہ کام پر جانے کے قابل بناتی ہے۔ یہ ایک لامتناہی چکر ہے جہاں ہم مسلسل دیتے رہتے ہیں اور بدلے میں صرف اتنا پاتے ہیں کہ اس چکر کو جاری رکھ سکیں۔
“اور شام کو؟ تم بس اتنا پاتے ہو کہ اگلی صبح دوبارہ کام پر جا سکو۔ یہ زندگی نہیں — یہ بقا ہے، اور بقا آزادی نہیں ہوتے”
بوکوسکی کا یہ اختتامی جملہ اس پورے بیان کا نچوڑ ہے۔ جب ہم شام کو کام سے واپس آتے ہیں، تو ہم کیا حاصل کرتے ہیں؟ ہم تھکے ہارے ہوتے ہیں، ہماری توانائی ختم ہو چکی ہوتی ہے، اور ہمارے پاس اپنے لیے یا اپنے پیاروں کے لیے بہت کم وقت بچتا ہے۔ جو کچھ ہم کماتے ہیں، وہ یا تو بلوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے، یا پھر اگلے دن کے لیے خود کو تیار کرنے میں۔
“تم بس اتنا پاتے ہو کہ اگلی صبح دوبارہ کام پر جا سکو۔” یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری آمدنی کا بڑا حصہ ہماری بقا کو یقینی بنانے میں صرف ہو جاتا ہے۔ ہم کھانا کھاتے ہیں تاکہ زندہ رہ سکیں، ہم سوتے ہیں تاکہ اگلے دن کام کر سکیں، اور ہم پیسے کماتے ہیں تاکہ اس چکر کو جاری رکھ سکیں۔ یہ ایک ایسا وجود ہے جہاں مقصد زندگی جینا نہیں بلکہ صرف زندہ رہنا ہے۔
بوکوسکی اس حالت کو “زندگی” کہنے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک، “یہ زندگی نہیں — یہ بقا ہے۔” زندگی کا مطلب صرف سانس لینا اور بنیادی ضروریات پوری کرنا نہیں ہوتا۔ زندگی کا مطلب ہوتا ہے آزادی، خود مختاری، خوشی، تخلیقی صلاحیت، اپنے خوابوں کی تکمیل، اور اپنے وقت کو اپنی مرضی کے مطابق صرف کرنا۔ جب یہ سب کچھ موجود نہ ہو، تو اسے صرف بقا کہا جا سکتا ہے۔
اور سب سے اہم بات: “اور بقا آزادی نہیں ہوتے۔” یہ جملہ ہمیں غلامی کے نئے تصور کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ جسمانی غلامی میں، غلام بقا کے لیے کام کرتا تھا، لیکن وہ آزاد نہیں تھا۔ آج، ہم بھی بقا کے لیے کام کرتے ہیں، اور ہمیں آزادی کا وہ احساس نہیں ہوتا جو ایک مکمل اور بامعنی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ ہم مالیاتی طور پر اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں، اپنے وقت کے مالک نہیں، اور اپنے مستقبل کے مکمل طور پر ذمہ دار نہیں۔
جدید معاشی نظام اور غلامی کا استحکام
بوکوسکی کا یہ بیان جدید سرمایہ دارانہ نظام پر ایک گہرا تنقیدی تبصرہ ہے۔ یہ نظام، جو بظاہر ترقی اور خوشحالی کا وعدہ کرتا ہے، درحقیقت ایک ایسا ڈھانچہ تیار کرتا ہے جہاں افراد کو مسلسل کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس نظام کے اندر ہی رہ سکیں۔
صارفیت کا جال: جدید معاشرہ صارفیت پر مبنی ہے۔ ہمیں مسلسل یہ سکھایا جاتا ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ چیزیں خریدنی چاہییں، بہتر گھر، بہتر گاڑی، نئے گیجٹس۔ یہ خواہشات ہمیں مزید کمانے پر مجبور کرتی ہیں، اور اس طرح ہم قرضوں کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ یہ قرضے ہمیں اس نظام سے مزید مضبوطی سے جوڑ دیتے ہیں۔
آمدنی میں عدم مساوات: امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ بھی اس غلامی کو مزید تقویت دیتا ہے۔ ایک طرف چند افراد بے پناہ دولت جمع کر رہے ہیں، تو دوسری طرف اکثریت صرف بقا کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ یہ عدم مساوات اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ زیادہ تر لوگ کبھی بھی مالیاتی آزادی حاصل نہ کر سکیں اور ہمیشہ نظام کے محتاج رہیں۔
خود مختاری کا سراب: ہمیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ہم آزاد ہیں، ہمارے پاس انتخاب کا حق ہے۔ ہم اپنی مرضی سے نوکری بدل سکتے ہیں، اپنی مرضی سے رہ سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ انتخاب اکثر محدود ہوتے ہیں۔ ایک نوکری سے دوسری نوکری میں جانا بھی اسی بقا کے چکر کا حصہ ہوتا ہے، جہاں ہم صرف ایک مالک سے دوسرے مالک کے پاس جاتے ہیں۔ حقیقی خود مختاری اس وقت حاصل ہوتی ہے جب ہمیں کام کرنے کی مجبوری نہ ہو، اور ہم اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔
اس غلامی سے نکلنے کی راہیں: کیا حقیقی آزادی ممکن ہے؟
بوکوسکی کا بیان ایک تلخ حقیقت کو بیان کرتا ہے، لیکن یہ ہمیں سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے کہ کیا اس غلامی سے نکلنا ممکن ہے؟ کیا حقیقی آزادی حاصل کی جا سکتی ہے؟
- مالیاتی خواندگی اور بچت: سب سے پہلے، ہمیں مالیاتی طور پر خود مختار بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ صرف زیادہ کمانے سے نہیں، بلکہ سمجھداری سے خرچ کرنے اور بچت کرنے سے ممکن ہے۔ غیر ضروری قرضوں سے بچنا اور ایک ایمرجنسی فنڈ بنانا ہمیں مالیاتی دباؤ سے نجات دلا سکتا ہے۔
- اپنے وقت کی قدر: ہمیں اپنے وقت کی قدر کو سمجھنا ہوگا اور اسے صرف مالی فوائد کے لیے فروخت نہیں کرنا ہوگا۔ اپنے وقت کا کچھ حصہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں، اپنے شوق، اور اپنے خاندان کے لیے مختص کرنا ضروری ہے۔
- متبادل طرز زندگی: کچھ لوگ اس نظام سے نکلنے کے لیے متبادل طرز زندگی اپناتے ہیں، جیسے کم سے کم ضروریات میں رہنا، خود روزگاری کو فروغ دینا، یا ایسے کام کرنا جو انہیں مالی آزادی کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی فراہم کریں۔
- نظام پر سوال اٹھانا: بوکوسکی کا بیان ہمیں اس نظام پر سوال اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم صرف ایک مشین کا پرزہ نہیں ہیں، بلکہ ایک آزاد انسان ہیں جس کے خواب اور خواہشات ہیں۔
- تعلیم اور ہنر مندی: مسلسل تعلیم حاصل کرنا اور نئے ہنر سیکھنا ہمیں اس قابل بنا سکتا ہے کہ ہم بہتر مواقع حاصل کریں اور اپنی آمدنی کے ذرائع کو متنوع بنا سکیں۔ یہ ہمیں ایک ہی ذریعہ آمدنی پر مکمل انحصار سے بچا سکتا ہے۔
- کمیونٹی اور تعاون: ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا اور کمیونٹی بنانا بھی اس نظام کے خلاف ایک مزاحمت ہو سکتی ہے۔ مشترکہ وسائل کا استعمال، باہمی مدد، اور ایک دوسرے کی حمایت ہمیں مالیاتی دباؤ کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
نتیجہ
چارلس بوکوسکی کا یہ بیان ایک آئینہ ہے جو ہمیں جدید معاشرے کی ایک چھپی ہوئی حقیقت دکھاتا ہے۔ غلامی نے اپنی شکل بدل لی ہے، اور اب وہ لوہے کی زنجیروں میں نہیں بلکہ تنخواہوں، کرایوں اور قرضوں کی صورت میں ہمارے گرد لپٹی ہوئی ہے۔ یہ نظام ہمیں اتنا ضرور دیتا ہے کہ ہم بھوکے نہ مریں، لیکن اتنا کبھی نہیں دیتا کہ ہم آزاد ہو کر جینا شروع کر دیں۔ ہم ہر صبح اٹھتے ہیں، دفتر جاتے ہیں، اور اپنی زندگی کا قیمتی وقت، توانائی، خواب، اور جوانی قسطوں میں گروی رکھ دیتے ہیں، صرف اس لیے کہ شام کو ہمیں اتنا مل جائے کہ ہم اگلی صبح دوبارہ کام پر جا سکیں۔
یہ زندگی نہیں، یہ بقا ہے۔ اور بقا آزادی نہیں ہوتی۔ بوکوسکی کا یہ پیغام ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے وجود، اپنے مقاصد، اور اس نظام میں اپنی حیثیت پر غور کریں۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی آزادی صرف مالیاتی خوشحالی سے نہیں ملتی، بلکہ یہ اپنے وقت، اپنی مرضی، اور اپنے خوابوں پر اختیار رکھنے میں مضمر ہے۔ اس بیان کا مقصد ہمیں مایوس کرنا نہیں، بلکہ ہمیں بیدار کرنا ہے تاکہ ہم اس پوشیدہ غلامی کو پہچانیں اور اس سے نکلنے کی راہیں تلاش کر سکیں، اور ایک ایسی زندگی جی سکیں جو صرف بقا نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں آزادی ہو۔