google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
US Japan Relationships

، دنیا کے دو اہم ترین اتحادیوں، امریکہ اور جاپان، کے درمیان تعلقات ایک نئے اور غیر یقینی دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایک طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ‘امریکہ سب سے پہلے’ کی خارجہ پالیسی ہے جو دیرینہ فوجی اور تجارتی معاہدوں پر نظر ثانی کی متقاضی ہے، اور دوسری طرف جاپان میں قدامت پسند اور سخت گیر مؤقف رکھنے والی ابھرتی ہوئی سیاسی شخصیت ثنائے تاکاچی کا ممکنہ عروج ہے، جس کے باعث یہ اتحاد ایک نئے امتحان سے دوچار ہے۔

اس تجزیے میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح دونوں طرف کے سخت گیر نظریات، جو بظاہر ایک دوسرے کے مخالف لگتے ہیں، ایشیا پیسیفک خطے میں سکیورٹی کے پورے ڈھانچے کو غیر مستحکم کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

1. ٹرمپ کا دباؤ: ‘امریکہ سب سے پہلے’ کی قیمت

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت ایک بار پھر اپنے اتحادیوں، خاص طور پر جاپان، پر دفاعی اخراجات کا ‘مناسب بوجھ’ اٹھانے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ CNN کے تجزیے کے مطابق، ٹرمپ کی جانب سے جاپان پر دو بنیادی مطالبات متوقع ہیں:

الف) دفاعی بجٹ میں شدید اضافہ:

صدر ٹرمپ نے طویل عرصے سے جاپان اور جنوبی کوریا جیسے اتحادیوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ امریکی فوج کی موجودگی کی لاگت کا پورا حصہ ادا نہیں کرتے۔ تجزیہ بتاتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ جاپان سے اپنے دفاعی بجٹ کو ملک کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے 2 فیصد تک تیزی سے بڑھانے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ جاپان میں پہلے ہی دفاعی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ٹرمپ کا سخت مؤقف جاپانی عوام کے اندر بھی اس بوجھ کے خلاف مزاحمت پیدا کر سکتا ہے۔

ب) تجارتی عدم توازن:

اگرچہ ماضی میں امریکہ اور جاپان نے تجارتی معاہدے کیے ہیں، لیکن امریکہ کی جانب سے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے جاپانی مصنوعات، خاص طور پر گاڑیوں پر، اضافی محصولات (Tariffs) عائد کرنے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ ٹرمپ کا تجارتی سخت گیر رویہ دوطرفہ معاشی تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جس کے اثرات عالمی سپلائی چین پر پڑیں گے۔

2. ثنائے تاکاچی: جاپان میں قدامت پسندی کا ابھرتا ہوا چہرہ

جاپان کی سیاسی قیادت میں ایک اہم نام ثنائے تاکاچی کا ابھرنا ایک ایسا عنصر ہے جو امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ وہ جاپان کی قدامت پسند سیاست دان ہیں اور انہیں شنزو آبے کی سیاسی وراثت کا امین سمجھا جاتا ہے۔

الف) مضبوط دفاعی موقف:

تاکاچی طویل عرصے سے جاپان کے آئین کی دفعہ 9 (جو ملک کو جارحانہ جنگ سے روکتی ہے) پر نظر ثانی اور جاپان کی دفاعی صلاحیتوں کو مزید مضبوط بنانے کی حامی رہی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جاپان کو مکمل طور پر خود مختار دفاعی کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ مؤقف ٹرمپ کے ‘بوجھ بانٹنے’ کے مطالبے سے ملتا جلتا دکھائی دیتا ہے، لیکن جاپانی قوم پرستی کا عنصر اس میں موجود ہے۔ جاپانی قیادت اگرچہ ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے اخراجات بڑھا سکتی ہے، لیکن اندرونی طور پر وہ امریکہ سے کم انحصار کی حکمت عملی پر بھی کام کر سکتی ہے۔

ب) تاریخی حساسیت:

تاکاچی، یاسوکونی مزار کے دورے جیسی سرگرمیوں کی وجہ سے، چین اور جنوبی کوریا میں تاریخی حساسیت کا باعث بھی بنتی رہی ہیں۔ ان کا سخت گیر مؤقف خطے میں تناؤ کو بڑھا سکتا ہے، جس کے بعد امریکی صدر کو اپنے بنیادی ایشیائی اتحادیوں کے درمیان تعلقات کو متوازن کرنا مشکل ہو جائے گا۔

3. جیو پولیٹیکل تناظر: چین اور تائیوان کا خطرہ

CNN کے تجزیے کا سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ امریکہ-جاپان اتحاد کا کمزور ہونا ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب چین خطے میں اپنی فوجی طاقت اور اثر و رسوخ میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے۔

  • تائیوان پر توجہ: تائیوان کے مسئلے پر چین کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے پیش نظر، امریکہ کے لیے جاپان کا فوجی تعاون اور جاپان میں موجود امریکی اڈوں کی موجودگی انتہائی اہم ہے۔
  • اتحاد کی ضرورت: اگر امریکہ اور جاپان کے درمیان دفاعی معاہدے کمزور پڑتے ہیں، یا اگر دونوں رہنما تجارتی تنازعات میں الجھ جاتے ہیں، تو چین کو خطے میں مزید آزادانہ کارروائی کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ تجزیے میں خبردار کیا گیا ہے کہ چین کی توسیع پسندی کا مقابلہ صرف ایک متحد فرنٹ ہی کر سکتا ہے۔

4. ماہرین کا خلاصہ اور پیش منظر

سکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ-جاپان تعلقات میں ایک نیا “باہمی تصادم” (Transactional Clash) کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ جہاں ٹرمپ کی کوشش ہے کہ وہ جاپان سے زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ حاصل کریں اور پرانے معاہدوں کو منسوخ کریں، وہیں ثنائے تاکاچی جیسی شخصیات جاپان کے قومی مفادات اور فوجی خود مختاری کو ترجیح دینے میں پیچھے نہیں ہٹیں گی۔

نتیجہ: امریکہ-جاپان اتحاد ایشیا کی سکیورٹی کا لنگر ہے۔ اگر یہ لنگر تجارتی اور دفاعی تنازعات کی وجہ سے ہلنا شروع ہو جائے، تو اس سے نہ صرف ٹوکیو اور واشنگٹن کے تعلقات متاثر ہوں گے بلکہ پورے ایشیا پیسیفک خطے میں غیر یقینی اور عدم استحکام پیدا ہو گا۔ آئندہ کے مہینے یہ طے کریں گے کہ آیا دونوں ممالک اتحاد کو بچانے کے لیے مشترکہ نقطہ نظر تلاش کر سکتے ہیں یا پھر دونوں رہنماؤں کے سخت گیر مؤقف اس دیرینہ تعلق کو کمزور کر دیں گے۔

مزید معلومات اور تفصیلی تجزیہ کے لیے رابطہ

یہ خبر CNN کے خصوصی تجزیے پر مبنی ہے اور اس کے گہرائی میں مطالعہ کے لیے قارئین درج ذیل ذرائع سے رابطہ کر سکتے ہیں:

رپورٹنگ اور تجزیہ:

  • CNN انٹرنیشنل ڈیسک
  • ایشیائی جیو پولیٹکس کے ماہرین (جیسا کہ تجزیے میں شامل ہیں)

آن لائن حوالہ:

  • مزید تفصیلی تجزیے اور گرافکس کے لیے براہ کرم CNN کی ویب سائٹ (www.cnn.com) پر جائیں۔

ٹیلی فون رابطہ:

  • CNN گلوبل پریس آفس کے لیے (+1) 404-827-1500 (عام استفسارات کے لیے)۔

About The Author

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات