SEO کلیدی الفاظ: پاکستانی لکڑی کی کشتیاں، روایتی کشتی سازی بلوچستان، فائبر گلاس کشتیوں کا اثر، گوادر ترقیاتی ادارہ (GDA) کی کوششیں، ماہی گیری کی صنعت پاکستان، وڈو کشتی ساز ایسوسی ایشن۔
کوئٹہ: بلوچستان کے ساحلوں پر لکڑی کی روایتی کشتی سازی کا صدیوں پرانا فن، جو کبھی مقامی ثقافت اور معیشت کی فخر تھا، اب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ گوادر، پسنی، اورماڑہ، سوربندر، اور کراچی جیسے ماہی گیری کے شہروں میں یہ صنعت تیزی سے زوال پذیر ہے، جس کی بنیادی وجہ جدید فائبر گلاس کشتیوں کا بڑھتا ہوا استعمال، حکومتی سرپرستی کا فقدان، اور مارکیٹ کی گرتی ہوئی طلب ہے۔
فائبر گلاس کی یلغار اور روایتی صنعت پر اثرات
وڈو کشتی ساز ایسوسی ایشن بلوچستان کے نمائندے، محمد موسیٰ کے مطابق، صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “آج ماہی گیری کے لیے چلنے والی تقریباً 65 فیصد کشتیاں فائبر گلاس کی ہیں، اور چھوٹی ماہی گیری کشتیاں میں یہ تعداد 95 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔”
زیادہ تر فائبر گلاس کشتیاں یا تو ایران سے درآمد کی جاتی ہیں یا کم ضابطوں کے تحت مقامی مارکیٹ میں داخل ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، پرانی لکڑی کی کشتیوں کے ڈھانچے پر فائبر گلاس کی جزوی کوٹنگ والے ہائبرڈ ماڈلز بھی اب مجموعی بیڑے کا تقریباً 18 فیصد بن چکے ہیں۔
روزگار اور ہنرمندی کا بحران
روایتی صنعت کو ہنرمند افرادی قوت اور بنیادی ڈھانچے کے شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ کشتی سازی کی قدیم ہنرمندی جو نسل در نسل بلوچ اور سندھی کاریگروں میں منتقل ہوتی تھی، اب مقامی ٹیلنٹ کی کمی کی وجہ سے تیزی سے مٹ رہی ہے۔
روایتی لکڑی کے کاریگر فیض احمد وڈو نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “ہم پہلے ماہانہ 8 سے 10 کشتیاں بناتے تھے۔ اب مانگ تقریباً 70 سے 80 فیصد کم ہو گئی ہے، اور ہم بمشکل ایک کشتی پر کام کرتے ہیں۔”
لکڑی کے کاریگروں کی یومیہ اجرت تقریباً 2,000 روپے پر رکی ہوئی ہے، جو دیگر شعبوں کے مقابلے میں بہت کم ہے، جس کی وجہ سے تجربہ کار کاریگروں کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
لکڑی کی کشتیوں کے ماحولیاتی اور معاشی فوائد
ماہی گیر طبقے کے نمائندے، یونس انور، لکڑی کی کشتیوں کی بے شمار خصوصیات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
- ماحولیاتی دوستانہ: لکڑی کی کشتیاں ماحول دوست ہوتی ہیں۔
- کشتی رانی کی بہتر صلاحیت: وہ سمندر میں زیادہ پائیدار اور محفوظ ثابت ہوتی ہیں۔
- کم ایندھن کا استعمال: لکڑی کی کشتیوں میں کم طاقت کے انجن استعمال ہوتے ہیں، جس سے شور کی آلودگی کم ہوتی ہے اور ایندھن کا استعمال بھی نمایاں طور پر کم ہوتا ہے۔
- ماہی گیروں کے لیے آرام دہ: یہ لمبی سفر کے دوران عملے کے لیے زیادہ جگہ اور آرام فراہم کرتی ہیں۔
اس کے برعکس، تیز رفتار فائبر گلاس کشتیاں، جو اکثر 85 ہارس پاور تک کے انجن استعمال کرتی ہیں، سمندری حیات کو پریشان کرتی ہیں اور زیادہ ایندھن استعمال کرتی ہیں۔ سلمان نامی ایک ماہی گیر کے مطابق، “ہماری کشتی ماہانہ 400 لیٹر ایندھن استعمال کرتی ہے، جبکہ فائبر گلاس کی کشتی آسانی سے 1,500 لیٹر استعمال کرتی ہے۔”
احیاء کی امید: گوادر ترقیاتی ادارہ کا منصوبہ
بلوچستان فشریز اینڈ کوسٹل ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر شماریات، عصمت اللہ کے مطابق، فائبر گلاس کشتیوں کی طرف یہ منتقلی ایک تشویشناک رفتار سے جاری ہے۔
تاہم، اس زوال کو روکنے کے لیے ایک امید کی کرن سامنے آئی ہے۔ گوادر ترقیاتی ادارہ (GDA) کے ایک سینئر اہلکار، نادر بلوچ نے انکشاف کیا ہے کہ گوادر میں روایتی کشتی سازی کی صنعت کو بحال کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
“ہم نے اس انمول ثقافتی اور اقتصادی اثاثے کو زندہ کرنے کے لیے ایک وسیع منصوبہ تیار کیا ہے،” انہوں نے کہا۔ یہ منصوبہ عملدرآمد کے لیے حکومت بلوچستان کے ساتھ شیئر کیا جا چکا ہے، جو کہ ساحلی برادریوں کے ورثے اور روزگار کو محفوظ بنانے کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
فوری کارروائی کا مطالبہ
اس قدیم فن اور ذریعہ معاش کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیے، فوری اور کثیر الجہتی اقدامات کی ضرورت ہے۔
- مالی معاونت: صوبائی حکومت کو روایتی کشتی سازوں کی حمایت کے لیے سبسڈی اور کم شرح سود پر قرضے فراہم کرنے چاہئیں۔
- جدید سہولیات: کشتی سازی کے لیے مناسب سہولیات، سایہ دار کام کی جگہیں، اور جدید اوزار سے لیس مراکز قائم کیے جائیں۔
- ہنر کی منتقلی: تجربہ کار کاریگروں کے خصوصی ہنر کو نوجوان نسلوں میں منتقل کرنے کے لیے ہدف پر مبنی تربیتی پروگرام شروع کیے جائیں۔
- ضابطے: ایران سے آنے والی فائبر گلاس کشتیوں کی غیر منظم درآمد اور رجسٹریشن کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت ضابطے نافذ کیے جائیں۔
- تحقیق: روایتی کاریگری کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے ہائبرڈ ماڈلز (لکڑی کا اندرونی حصہ، فائبر گلاس کی کوٹنگ) پر تحقیق کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
لکڑی کی کشتی سازی کی صنعت صرف ایک اقتصادی سرگرمی نہیں ہے؛ یہ بلوچستان کی ساحلی برادریوں کی ثقافتی شناخت اور ورثے کی ترجمانی کرتی ہے۔ اگر فیصلہ کن کارروائی نہ کی گئی تو یہ شاندار روایت جلد ہی ساحلی منظر نامے سے غائب ہو جائے گی، جس کا خلا کوئی جدید متبادل پُر نہیں کر سکے گا۔
