google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Cameras that violate privacy

پاکستان کے ‘سیف سٹی’ پروجیکٹس میں متعارف کرائی گئی ایک نئی خصوصیت ملک بھر کے شہریوں کے لیے پرائیو کے حوالے سے سنگین خدشات پیدا کر رہی ہے۔ یہ نئی خصوصیت، جو مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال کرتے ہوئے عوام کی نگرانی کو ایک نئے درجے پر لے جاتی ہے، پرائیویسی کے حقوق کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔


👁️ نئی خصوصیت کیا ہے؟

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کے بڑے شہروں جیسے لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں نصب ‘سیف سٹی’ کیمروں کے نظام کو اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ اس نئے نظام میں اب مندرجہ ذیل جدید نگرانی کی صلاحیتیں شامل ہیں:

  • چہرے کی شناخت (Facial Recognition): کیمرے اب عوام کے چہروں کی شناخت کر سکتے ہیں اور انہیں ڈیٹا بیس میں موجود افراد سے ملا سکتے ہیں۔
  • جذباتی تجزیہ (Emotion Analysis): AI کی بنیاد پر یہ نظام لوگوں کے چہروں کے تاثرات کا تجزیہ کر کے ان کے جذبات کا پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے۔
  • ہجوم کا تجزیہ (Crowd Analysis): یہ خصوصیت بڑے اجتماعات کی نگرانی کرتی ہے اور کسی بھی “غیر معمولی” یا “مشتبہ” سرگرمی کی نشاندہی کر سکتی ہے۔

😟 پرائیویسی کے خدشات کیوں؟

یہ خصوصیات بظاہر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کے لیے بنائی گئی ہیں، لیکن ان کے استعمال سے شہری آزادیوں اور پرائیویسی پر شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں:

  • بغیر اجازت نگرانی: ہر شہری کو، چاہے اس نے کوئی جرم نہ بھی کیا ہو، مستقل طور پر حکومتی نگرانی میں رکھا جا رہا ہے۔
  • ڈیٹا کا غلط استعمال: اس بات کا کوئی واضح یقین نہیں ہے کہ جمع کیے گئے چہرے کے ڈیٹا، مقامات اور جذبات کے تجزیے کو کیسے محفوظ کیا جائے گا یا اسے حکومتی اہلکار کس طرح استعمال کریں گے۔ خدشہ ہے کہ یہ ڈیٹا سیاسی مخالفین یا عام شہریوں کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
  • قانون سازی کا فقدان: پاکستان میں اس طرح کی وسیع نگرانی کی ٹیکنالوجی کے استعمال کو منظم کرنے کے لیے کوئی جامع پرائیویسی قانون موجود نہیں ہے۔ حکام کو لوگوں کے ڈیٹا تک رسائی اور اسے استعمال کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
  • “سرد کرنے والا اثر” (Chilling Effect): عوام کو یہ خوف ہو سکتا ہے کہ اگر وہ حکومت یا اس کی پالیسیوں کے خلاف عوامی مقامات پر اظہار خیال کریں گے تو انہیں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے آزادی اظہار اور پرامن اجتماع کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔

⚖️ بین الاقوامی تناظر

پرو پاکستانی کی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک نے چہرے کی شناخت جیسی ٹیکنالوجی کو یا تو مکمل طور پر ممنوع قرار دے دیا ہے یا اس کے استعمال پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں تاکہ شہری حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔ تاہم، پاکستان میں اس ٹیکنالوجی کو پرائیویسی کے تحفظات پر مناسب غور کیے بغیر اپنایا جا رہا ہے۔


📝 اختتامیہ

یہ نئی ‘سیف سٹی’ خصوصیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے پناہ طاقت فراہم کرتی ہے، لیکن پرائیویسی کے تحفظ کے لیے کوئی مناسب چیک اینڈ بیلنس موجود نہیں ہے۔ جب تک حکومت نگرانی کی ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے سخت قوانین اور شفاف طریقہ کار متعارف نہیں کراتی، یہ نظام پاکستانی شہریوں کی پرائیویسی کے لیے ایک خوفناک خواب اور ان کی بنیادی آزادیوں کے لیے ایک مستقل خطرہ بنا رہے گا۔


کیا آپ پاکستان میں پرائیویسی کے قوانین اور حقوق کے بارے میں مزید معلومات چاہتے ہیں؟

About The Author

پاکستان ریلوے کا لاؤنچ Babar Azam flying to Australia for BBL صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب