بیجنگ: چین نے اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی بحری طاقت کے مظاہرے میں ایک اور اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے اور جدید ترین ساختہ طیارہ بردار جہاز، ’فوجیان‘ (Type 003)، نے حال ہی میں اپنی پہلی فوجی مشقیں مکمل کی ہیں، جس کے بعد اب یہ چین کے صدر شی جن پنگ کے فوجی عزائم اور دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے عسکری کردار کا ایک طاقتور مظہر بن گیا ہے۔
فوجیان کی اہمیت: ٹیکنالوجی میں بڑی چھلانگ
طیارہ بردار جہاز ’فوجیان‘ چین کے لیے کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ یہ نہ صرف سائز میں چین کے پہلے دو طیارہ بردار جہازوں (لیاؤنِنگ اور شیڈونگ) سے بڑا ہے، بلکہ یہ جدید ’کیٹاپلٹ‘ ٹیکنالوجی (CATOBAR) سے بھی لیس ہے، جو طیاروں کو مختصر فاصلے سے لانچ کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیٹاپلٹ سسٹم اسے امریکی اور فرانسیسی طیارہ بردار جہازوں کے برابر لاتا ہے، جس سے یہ تیزی سے زیادہ تعداد میں بھاری جنگی طیارے لانچ کر سکتا ہے۔ یہ صلاحیت چین کی بحریہ کو گہرے سمندر میں زیادہ دور تک اور زیادہ موثر انداز میں فضائی کور فراہم کرنے کے قابل بناتی ہے۔
تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین پر توجہ:
’فوجیان‘ کی تعیناتی خاص طور پر تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین کے متنازعہ علاقوں میں چین کی فوجی طاقت کو بڑھانے کے لیے ایک کلیدی قدم سمجھا جاتا ہے۔ اس کی مشقیں مکمل ہونے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ چین اب اپنی بحری صلاحیتوں کو خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کے لیے تیار کر رہا ہے۔
شی جن پنگ کا وژن اور بحریہ کی جدید کاری
’فوجیان‘ طیارہ بردار جہاز کا آپریشنل ہونا صدر شی جن پنگ کے اس وسیع وژن کا حصہ ہے جس کے تحت وہ پیپلز لبریشن آرمی (PLA) کو 2049 تک ایک “عالمی معیار کی فوجی قوت” بنانا چاہتے ہیں۔ شی جن پنگ کی قیادت میں، چین نے بحریہ (PLAN) کی جدید کاری پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے، جس کے نتیجے میں یہ دنیا کی سب سے بڑی بحریہ بن گئی ہے۔
طاقت کا مظاہرہ:
چین کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی عسکری قوت کو محض دفاعی کردار تک محدود نہ رکھے، بلکہ ایک ایسی بحری طاقت بنے جو دنیا کے دور دراز علاقوں تک رسائی حاصل کر سکے۔ ’فوجیان‘ جیسے طیارہ بردار جہازوں کی شمولیت سے چین کی صلاحیتوں کا مرکز علاقائی دفاع سے عالمی طاقت کے مظاہرے کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کی رائے:
ماہرین کا ماننا ہے کہ طیارہ بردار جہاز دراصل ’فلوٹنگ ایئر بیس‘ ہوتے ہیں، اور تین طیارہ بردار جہازوں کا بیڑا (اور چوتھے کی تیاری کی افواہیں) چین کو بیک وقت دو یا تین مختلف محاذوں پر اپنی فضائی طاقت کو استعمال کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اس سے چین کو کسی بھی بحران کی صورت میں ایک اہم جغرافیائی سیاسی فائدہ حاصل ہو گا۔
علاقائی ردعمل اور عالمی تشویش
’فوجیان‘ کی مشقوں نے ایشیا اور امریکہ میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔
- تائیوان: تائیوان اس پیش رفت کو اپنی خودمختاری کے لیے ایک براہ راست خطرہ سمجھتا ہے اور اس کے فوجی حکام چین کی بحری سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
- امریکہ اور اتحادی: امریکہ اور اس کے اتحادی، جن میں جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں، پہلے ہی بحیرہ جنوبی چین میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی بحری مشقوں کو بڑھا چکے ہیں۔ ’فوجیان‘ کی آپریشنل تیاری سے اس خطے میں مزید فوجی کشیدگی پیدا ہونے کا امکان ہے۔
مستقبل کے عزائم: مزید کیا آنے والا ہے؟
’فوجیان‘ کی پہلی مشقیں دراصل ایک آغاز ہے۔ چین کا اگلا قدم طیارہ بردار جہاز کے لیے مخصوص لڑاکا طیاروں (J-35 اسٹیلتھ لڑاکا طیارہ بھی شامل) کی کامیاب لینڈنگ اور لانچنگ کا سلسلہ شروع کرنا ہو گا، جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی، اطلاعات کے مطابق چین چوتھے طیارہ بردار جہاز کی تیاری میں مصروف ہے، جس کے بارے میں قیاس آرائیاں ہیں کہ یہ ایٹمی توانائی سے چلنے والا ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو یہ چین کو امریکی بحریہ کی سب سے بڑی صلاحیتوں کے برابر لا کھڑا کرے گا۔
نتیجہ:
’فوجیان‘ طیارہ بردار جہاز کی شمولیت چین کے صدر شی جن پنگ کے اس عزم کو تقویت دیتی ہے کہ وہ چین کو ایک ایسی سپر پاور بنائیں گے جو اپنی طاقت کو نہ صرف اپنے قریبی سمندروں بلکہ دنیا بھر میں استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ یہ اقدام عالمی طاقت کے توازن اور ایشیا پیسیفک کی سلامتی کے لیے اہم نتائج کا حامل ہے۔
