لاہور/راولپنڈی، 3 نومبر 2025 – پاکستان میں خواتین کے حقوق کی ایک نوجوان وکیل، ماہ نور عمر نے ماہواری کی مصنوعات (سینیٹری پیڈز) پر عائد بھاری ٹیکسوں کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر کے قومی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ 25 سالہ ماہ نور کا مؤقف ہے کہ ان مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنا غیر منصفانہ اور امتیازی ہے، اور یہ آئین پاکستان میں دیے گئے مساوات اور وقار کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
ٹیکس کا مسئلہ اور آئینی چیلنج
ماہ نور عمر، جن کا تعلق راولپنڈی سے ہے، نے ستمبر 2025 میں لاہور ہائی کورٹ میں یہ درخواست دائر کی۔ ان کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ سینیٹری پیڈز کو پرفیومز اور کاسمیٹکس جیسی غیر ضروری یا لگژری اشیاء کے زمرے میں رکھ کر ان پر ٹیکس لگانا خواتین کے ساتھ ناانصافی ہے۔
- ٹیکس کا بوجھ: یونیسیف (UNICEF) کے مطابق، پاکستان میں سینیٹری پیڈز پر درآمدی ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی صورت میں مجموعی طور پر تقریباً 40 فیصد تک ٹیکس عائد ہوتا ہے۔
- عوامی صحت پر اثرات: اس بھاری ٹیکس کی وجہ سے لاکھوں خواتین کے لیے سینیٹری پیڈز خریدنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یونیسیف اور واٹر ایڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں صرف 12 فیصد خواتین تجارتی طور پر تیار کردہ پیڈز استعمال کرتی ہیں، جب کہ زیادہ تر خواتین غیر محفوظ اور غیر معیاری متبادلات پر انحصار کرتی ہیں، جو صحت کے سنگین مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔
- قانونی دلیل: درخواست گزار کا استدلال ہے کہ ماہواری کی مصنوعات ایک بنیادی ضرورت (Essential Good) ہیں اور ان پر ٹیکس عائد کرنا خواتین کو صرف ان کی صنف کی بنیاد پر “سزا” دینے کے مترادف ہے۔ درخواست میں آئین کے ان شقوں کا حوالہ دیا گیا ہے جو برابری، وقار اور سماجی انصاف کی ضمانت دیتے ہیں۔
عوامی دباؤ اور پذیرائی
ماہ نور عمر نے اس معاملے کو صرف عدالت تک محدود نہیں رکھا بلکہ عوامی دباؤ بڑھانے کے لیے ایک آن لائن پٹیشن بھی شروع کی ہے۔ ان کا مقصد ہے کہ حکومت پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ ان ٹیکسوں کو ختم کیا جا سکے۔ اس پٹیشن کو اب تک 4,700 سے زیادہ دستخط مل چکے ہیں۔
ماہ نور کا کہنا ہے، “یہ صرف مالی سکت کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ وقار اور انصاف کا معاملہ ہے۔ یہ موضوع طویل عرصے سے ایک ممنوعہ (Taboo) رہا ہے اور اسے اس حد تک نظر انداز کیا گیا ہے کہ جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔”
پس منظر اور آئندہ کی راہ
طالب علموں کی زیر قیادت ایک تنظیم ‘ماہواری جسٹس’ (Mahwari Justice) کی بانی بشریٰ ماہ نور (جن کا ماہ نور عمر سے کوئی تعلق نہیں) نے بھی اس کیس کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر جانتی ہیں کہ سینیٹری پیڈز تک رسائی حاصل کرنا کس قدر مشکل ہو سکتا ہے۔
ماہ نور عمر جو اس وقت لندن سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس (LSE) سے جینڈر، امن اور سلامتی میں ماسٹرز کر رہی ہیں، کہتی ہیں کہ ان کا ارادہ ہے کہ وہ اپنی وکالت اور حقوق کی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے پاکستان واپس آئیں گی۔ اس کیس کی پہلی سماعت ہو چکی ہے، تاہم حکومتی حکام کی جانب سے ابھی تک کوئی باضابطہ جواب عدالت میں جمع نہیں کرایا گیا ہے۔ ماہ نور کو امید ہے کہ ان کے حق میں آنے والا فیصلہ نہ صرف ان مصنوعات کو سستا کرے گا، بلکہ پاکستانی معاشرے میں ماہواری کے حوالے سے پائے جانے والے سماجی رویے کو بھی تبدیل کرنے میں مدد دے گا۔
Challenges faced by young lawyers in Pakistan | Journey of a young lawyer ft Boo Ali Khan
یہ ویڈیو پاکستان میں نوجوان وکیلوں کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالتی ہے، جو اس ملک میں قانونی تبدیلی لانے کے لیے ان کی جدوجہد کے پس منظر کو سمجھنے میں معاون ہو سکتی ہے۔
