
انسانی جسم میں نقل و حرکت کی خرابیوں بشمول ریسٹ لیس لیگ سنڈروم (آر ایل ایس) کے مریضوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں نے انھیں تجویز کردہ ادویات کے سنگین ضمنی اثرات کے بارے میں متنبہ نہیں کیا جن کی وجہ سے وہ خطرناک جنسی طرز عمل میں مبتلا ہو گئے۔ 20 خواتین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں آر ایل ایس (ٹانگوں کی اعصابی بیماری) کے لیے دی جانے والی دواؤں نے ان کی زندگیوں کو برباد کر دیا۔ ادویات کی کمپنی جی ایس کے کی ایک رپورٹ، جسے بی بی سی نے دیکھا ہے، سے پتہ چلتا ہے کہ 2003 میں ڈوپامین ایگونسٹ کے نام سے جانی جانے والی دوا اور ’گمراہ کن‘ جنسی طرز عمل کے درمیان تعلق کا انکشاف ہوا تھا۔ اس میں ایک ایسے شخص کے کیس کا حوالہ بھی دیا گیا جس نے پارکنسنز نامی بیماری کی دوا لیتے ہوئے ایک بچے کو جنسی حملے کا نشانہ بنایا تھا۔ اگرچہ آگاہی دینے والے پمفلٹ میں اس ضمنی اثر کا کوئی واضح حوالہ نہیں ہے لیکن برطانیہ کے میڈیسن ریگولیٹر نے ہمیں بتایا کہ جنسی خواہش میں اضافے اور نقصاندہ طرز عمل کے بارے میں ایک عام انتباہ موجود تھا۔ جی ایس کے کا کہنا ہے کہ پمفلٹس میں جنسی دلچسپی میں تبدیلی کے خطرے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
کچھ خواتین، جنھوں نے خطرناک جنسی رویے کی طرف راغب ہونے کے بارے میں بتایا، نے ہمیں بتایا کہ انھیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ دوسروں کا کہنا تھا کہ وہ جوا کھیلنے یا خریداری کرنے پر مجبور ہوئے حالانکہ انھوں نے ماضی میں ایسا کبھی نہیں کیا۔ ایک نے تو خود کو 150,000 پاؤنڈ سے زیادہ کا مقروض کرلیا۔
سیکس کے لیے گھر سے نکلنا شروع کر دیا
ایما، جن کی عمر 50 کی دہائی میں ہے، کو 2003 میں آر ایل ایس کی تشخیص ہوئی تھی۔ انھیں ایک گولی دی گئی جس کا نام پرامیپیکسول تھا، جو ڈوپامین ایگونسٹ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس دوا نے انھیں ’خطرناک جنسی لت‘ میں مبتلا کر دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں رات کو مردوں کے ساتھ سیکس کرنے کے لیے گھر سے نکلنا شروع کر دیتی تھی۔ میں ان لوگوں کے ساتھ سیکس کرتی تھی جنھیں میں جانتی بھی نہیں تھی۔ میں اپنی زندگی میں کبھی بھی ایسی نہیں تھی۔ میں نے اپنے شوہر کو دھوکہ دیا۔ میں نے اپنے بچوں کو نظر انداز کیا۔ میں نے اپنی نوکری کھو دی۔ میں نے اپنی عزت نفس کھو دی۔
ایما کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ ان کی دوا ان کے رویے کو متاثر کر رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے سوچا کہ میں پاگل ہو رہی ہوں۔ میں نے اپنے ڈاکٹر سے بات کی، لیکن انھوں نے مجھے بتایا کہ یہ دوا محفوظ ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔
2003 میں انکشاف
جی ایس کے کی ایک رپورٹ، جسے بی بی سی نے دیکھا ہے، سے پتہ چلتا ہے کہ 2003 میں ڈوپامین ایگونسٹ کے نام سے جانی جانے والی دوا اور ’گمراہ کن‘ جنسی طرز عمل کے درمیان تعلق کا انکشاف ہوا تھا۔ رپورٹ میں ایک ایسے شخص کے کیس کا حوالہ بھی دیا گیا جس نے پارکنسنز نامی بیماری کی دوا لیتے ہوئے ایک بچے کو جنسی حملے کا نشانہ بنایا تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈوپامین ایگونسٹ لینے والے کچھ لوگوں میں جوا کھیلنے، خریداری کرنے اور کھانے کی لت لگنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
آگاہی دینے والے پمفلٹ میں کوئی واضح حوالہ نہیں
اگرچہ آگاہی دینے والے پمفلٹ میں اس ضمنی اثر کا کوئی واضح حوالہ نہیں ہے لیکن برطانیہ کے میڈیسن ریگولیٹر نے ہمیں بتایا کہ جنسی خواہش میں اضافے اور نقصاندہ طرز عمل کے بارے میں ایک عام انتباہ موجود تھا۔ جی ایس کے کا کہنا ہے کہ پمفلٹس میں جنسی دلچسپی میں تبدیلی کے خطرے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
تاہم، کچھ خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں اس انتباہ کے بارے میں یاد نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس دوا کے یہ ضمنی اثرات ہیں، تو میں اسے کبھی نہیں لیتی۔
جی ایس کے کا ردعمل
جی ایس کے نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اپنی مصنوعات کی حفاظت کے لیے پرعزم ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ان خواتین کے تجربات کو سنجیدگی سے لیتی ہے جنھوں نے ڈوپامین ایگونسٹ لینے کے بعد جنسی لت کا تجربہ کیا ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور وہ میڈیسن ریگولیٹر کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مریضوں کو دوا کے ضمنی اثرات کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ کیا جائے۔
مستقبل میں کیا ہوگا؟
یہ واضح نہیں ہے کہ اس معاملے میں مستقبل میں کیا ہوگا۔ تاہم، یہ امید کی جاتی ہے کہ اس سے ڈاکٹروں اور مریضوں میں ڈوپامین ایگونسٹ کے ضمنی اثرات کے بارے میں آگاہی بڑھے گی۔ یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ اس سے ادویات کی کمپنیوں کو اپنی مصنوعات کے ضمنی اثرات کے بارے میں زیادہ شفاف ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔
یہ ضروری ہے کہ ڈاکٹر اور مریض کسی بھی دوا کے ممکنہ خطرات اور فوائد پر بات کریں۔ اگر آپ کوئی نئی دوا لے رہے ہیں، تو یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے ڈاکٹر کو کسی بھی ضمنی اثرات کے بارے میں بتائیں۔