
اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) — پاکستان کی سیاست میں ایک اہم اور غیر متوقع پیشرفت سامنے آئی ہے جہاں سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر نامزد کر دیا ہے۔ اس فیصلے نے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ عمران خان ماضی میں محمود اچکزئی اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی عوامی جلسوں میں نہ صرف نقلیں اتارا کرتے تھے بلکہ باقاعدہ ان کی پیروڈی بھی کرتے رہے۔
غیر متوقع سیاسی اتحاد
عمران خان کا یہ فیصلہ کئی حوالوں سے حیران کن ہے۔ ماضی میں، دونوں رہنماؤں کے درمیان شدید سیاسی اختلافات تھے۔ عمران خان، اپنے دور اقتدار میں اور اس سے پہلے بھی، اکثر اپوزیشن رہنماؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے تھے، اور ان میں محمود خان اچکزئی بھی شامل تھے۔ وہ جلسوں میں ان کی تقریر کے انداز اور جسمانی حرکات کی نقلیں اتار کر حاضرین کو محظوظ کرتے تھے، جو کہ ایک غیر روایتی سیاسی حکمت عملی تھی۔
اس نئی پیشرفت کو پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی جماعتوں کا موقف ہے کہ عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور وہ حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس صورتحال میں، پی ٹی آئی نے اپوزیشن کا ایک مضبوط بلاک تشکیل دینے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ محمود اچکزئی، جو ایک تجربہ کار اور سخت گیر سیاست دان سمجھے جاتے ہیں، کو اس نئے اتحاد میں ایک کلیدی کردار سونپا گیا ہے۔ ان کی نامزدگی کا مقصد اپوزیشن کو ایک نئی سمت دینا اور حکومت کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنانا ہے۔
ماضی کی پیروڈی اور اب کا اتحاد
سوشل میڈیا پر عمران خان کے پرانے ویڈیوز تیزی سے وائرل ہو رہے ہیں جن میں وہ محمود اچکزئی کی نقلیں اتار رہے ہیں۔ یہ ویڈیوز اس وقت وائرل ہوئیں جب پی ٹی آئی نے اچکزئی کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس صورتحال نے نہ صرف سیاسی مبصرین کو الجھا دیا ہے بلکہ عوام میں بھی ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ بہت سے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا سیاست میں نظریات اور اصولوں کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی؟ کیا ذاتی اختلافات کو اس آسانی سے بھلا دیا جا سکتا ہے؟
تاہم، پی ٹی آئی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سیاست میں لچک اور حکمت عملی ضروری ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ وقت ذاتی رنجشوں کو پس پشت ڈال کر ملک میں جمہوری اقدار کی بحالی کے لیے ایک متحدہ جدوجہد کا ہے۔ ان کے مطابق، عمران خان کا یہ فیصلہ سیاسی بصیرت کا عکاس ہے کہ انہوں نے ایک ایسے وقت میں ایک تجربہ کار سیاستدان کو اپنا رہنما بنایا جب وہ خود ایک مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں۔
آنے والے دنوں کی سیاست
محمود اچکزئی کی اپوزیشن لیڈر کے طور پر نامزدگی کے بعد آنے والے دنوں میں قومی اسمبلی کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر سیاست میں ایک نئی شدت دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ اچکزئی کو پارلیمنٹ کے اندر حکومت کا سخت مقابلہ کرنے کا موقع ملے گا، اور وہ پی ٹی آئی کے موقف کی بھرپور وکالت کر سکیں گے۔ ان کی تقریری صلاحیت اور سخت گیر موقف کی وجہ سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں ایک مؤثر اپوزیشن لیڈر ثابت ہوں گے۔
اس نئے اتحاد سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے آپ کو تنہائی سے نکال کر دیگر چھوٹی لیکن اہم سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو ماضی میں بھی کامیاب رہی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اس سے موجودہ سیاسی بحران کو ایک نئی سمت ملے گی۔ اس سارے معاملے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن فی الحال پاکستانی سیاست ایک نئے اور دلچسپ موڑ پر آ چکی ہے۔