google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
IMG-20250607-WA0273

تعارف

غزہ کی پٹی، جو دہائیوں سے تنازعات، ناکہ بندی اور مزاحمت کا مرکز رہی ہے، آج ایک نئی اور پیچیدہ حقیقت سے دوچار ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے حماس کے حملے اور اس کے بعد شروع ہونے والی بے مثال اسرائیلی فوجی کارروائی نے نہ صرف غزہ کے جغرافیائی اور سماجی منظرنامے کو تہس نہس کر دیا ہے، بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی ایک نئی شکل دی ہے۔ اس ابھرتی ہوئی صورتحال کے مرکز میں ایک ایسا کردار سامنے آیا ہے جو غزہ کے مستقبل کے بارے میں سنگین سوالات کو جنم دے رہا ہے: یاسر ابو شباب، ایک بدو قبیلے کا نوجوان رہنما جو مشرقی رفح میں ایک اسرائیل کی حمایت یافتہ فلسطینی ملیشیا کی قیادت کر رہا ہے۔

یہ کوئی معمولی پیشرفت نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل “حماس کے بعد والے دن” کے لیے ایک قابل عمل منصوبہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، مقامی فلسطینی گروہوں کو مسلح اور بااختیار بنانا ایک ایسی حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے جو غزہ کو مزید غیر مستحکم اور منقسم کر سکتی ہے۔ یاسر ابو شباب کی کہانی صرف ایک شخص کی کہانی نہیں، بلکہ یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ کس طرح جنگ اور قبضے کا دباؤ مقامی برادریوں کو مشکل اور متنازعہ انتخاب کرنے پر مجبور کرتا ہے، جس کے اثرات آنے والے کئی سالوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ یہ رپورٹ یاسر ابو شباب، اس کی ملیشیا، اس کے مقاصد اور غزہ کے مستقبل کے لیے اس کے مضمرات کا گہرائی سے جائزہ لے گی۔

کون ہے یاسر ابو شباب؟

یاسر ابو شباب اپنی تیسری دہائی کے اواخر میں ایک بدو نوجوان ہے۔ اس کا تعلق مشرقی رفح کے ایک بااثر قبیلے سے ہے، جو روایتی طور پر اس علاقے میں سماجی اور معاشی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ بدو قبائل، جو اپنی سخت جان طبیعت اور صحرائی ماحول میں زندہ رہنے کی صلاحیت کے لیے جانے جاتے ہیں، ہمیشہ سے غزہ کی سماجی ساخت کا ایک منفرد حصہ رہے ہیں۔ ان کے اپنے قوانین، روایات اور طاقت کے ڈھانچے ہیں جو اکثر مرکزی اتھارٹی سے آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔

جنگ سے پہلے، ابو شباب کا نام غزہ سے باہر شاید ہی کسی نے سنا ہو۔ وہ اپنے قبیلے کے اندر ایک ابھرتا ہوا رہنما تھا، لیکن اس کا اثر و رسوخ مقامی سطح تک محدود تھا۔ تاہم، موجودہ تنازعے نے اسے ایک غیر متوقع موقع فراہم کیا۔ جب حماس کی حکومت کا ڈھانچہ اسرائیلی حملوں کی شدت سے کمزور پڑا اور غزہ کے بیشتر حصوں میں لاقانونیت اور افراتفری پھیل گئی، تو مقامی طاقت کے خلا کو پر کرنے کے لیے نئے اداکار سامنے آئے۔ ابو شباب نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔

ذرائع کے مطابق، وہ ایک کرشماتی اور عملیت پسند شخصیت کا مالک ہے۔ وہ اپنے قبیلے کی روایات کو سمجھتا ہے اور ساتھ ہی جدید دور کے تقاضوں سے بھی واقف ہے۔ اس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، اسے اپنے قبیلے اور علاقے کے لوگوں کی بقا اور تحفظ کا ایک ذریعہ سمجھا۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جسے فلسطینی معاشرے کی اکثریت غداری کے مترادف سمجھتی ہے، لیکن ابو شباب اور اس کے حامی اسے ایک تلخ حقیقت پسندی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جب مرکزی فلسطینی قیادت انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور حماس کی پالیسیوں نے انہیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، تو انہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے غیر روایتی طریقے اپنانے پڑیں گے۔

ملیشیا کی تشکیل اور مقاصد: اسرائیل کا منصوبہ

ابو شباب کی قیادت میں کام کرنے والی ملیشیا کی تشکیل اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی براہ راست سرپرستی میں ہوئی۔ اس کا بنیادی مقصد مشرقی رفح، خاص طور پر کرم ابو سالم (کیرم شالوم) کراسنگ کے آس پاس کے علاقے میں سیکیورٹی اور نظم و نسق قائم کرنا ہے۔ یہ کراسنگ غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کے لیے سب سے اہم گزرگاہ ہے۔ جنگ کے ابتدائی مہینوں میں، امدادی ٹرکوں کے قافلوں کو لوٹنے اور افراتفری کے واقعات عام تھے، جس سے امداد کی تقسیم کا نظام بری طرح متاثر ہوا۔

اسرائیل نے اس مسئلے کا حل ایک مقامی پراکسی فورس کی تشکیل میں دیکھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ حماس کے مخالف یا غیر جانبدار قبائل کو مسلح کیا جائے تاکہ وہ امدادی قافلوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں اور اپنے علاقوں میں حماس کے جنگجوؤں کو کام کرنے سے روکیں۔ ابو شباب کا قبیلہ اس منصوبے کے لیے ایک مثالی امیدوار تھا۔ ان کی کرم ابو سالم کراسنگ سے قربت اور علاقے پر روایتی اثر و رسوخ نے انہیں ایک فطری انتخاب بنا دیا۔

اسرائیلی فوج نے ابو شباب کی ملیشیا کو ہلکے ہتھیار، مواصلاتی آلات اور انٹیلی جنس فراہم کی۔ ملیشیا کے ارکان زیادہ تر ابو شباب کے اپنے قبیلے اور دیگر اتحادی بدو خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا بظاہر مقصد تو امداد کی حفاظت اور تقسیم کو منظم کرنا ہے، لیکن ان کا اصل کردار اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ وہ درحقیقت اسرائیل کے لیے زمین پر آنکھوں اور کانوں کا کام کر رہے ہیں۔ وہ حماس کے ٹھکانوں، سرنگوں اور جنگجوؤں کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں، اور بدلے میں اسرائیل انہیں اپنے علاقے میں ایک حد تک خود مختاری اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔

یہ حکمت عملی اسرائیل کے لیے کئی لحاظ سے فائدہ مند ہے۔ اول، یہ اسے غزہ پر مکمل فوجی قبضہ کیے بغیر کنٹرول برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ فراہم کرتی ہے۔ دوم، یہ حماس کی حکمرانی کو کمزور کرتی ہے اور فلسطینی معاشرے میں تقسیم کو گہرا کرتی ہے۔ سوم، یہ غزہ کی تعمیر نو اور مستقبل کے نظم و نسق کے لیے ایک متبادل ماڈل پیش کرتی ہے جو اسرائیل کے سیکیورٹی مفادات کے مطابق ہو۔

سٹریٹجک اہمیت: مشرقی رفح اور کرم ابو سالم کراسنگ

جغرافیائی اور سٹریٹجک لحاظ سے، یاسر ابو شباب کی ملیشیا کا کنٹرول ایک انتہائی اہم علاقے پر ہے۔ مشرقی رفح نہ صرف مصر کی سرحد کے قریب ہے بلکہ یہ کرم ابو سالم کراسنگ کا گھر بھی ہے، جو اس وقت غزہ میں داخل ہونے والی تقریبا تمام بین الاقوامی امداد کا مرکزی راستہ ہے۔ اس کراسنگ پر کنٹرول کا مطلب ہے زندگی اور موت پر کنٹرول۔

جو بھی اس گزرگاہ کو کنٹرول کرتا ہے، وہ نہ صرف امدادی سامان کی تقسیم پر اثر انداز ہو سکتا ہے بلکہ اس سے بھاری معاشی اور سیاسی فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔ ابو شباب کی ملیشیا اب اس پوزیشن میں ہے کہ وہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ امداد کس کو، کب اور کیسے ملے گی۔ اس نے انہیں اپنے علاقے میں ایک غیر معمولی طاقت بخشی ہے۔ وہ اپنے حامیوں کو نواز سکتے ہیں اور اپنے مخالفین کو سزا دے سکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، اس ملیشیا نے امدادی سامان پر ایک قسم کا “ٹیکس” بھی عائد کر رکھا ہے، جس سے وہ اپنے آپریشنز کے لیے فنڈز اکٹھا کرتے ہیں۔

اسرائیل کے لیے، یہ صورتحال مثالی ہے۔ ایک مقامی گروہ اس کے لیے وہ کام کر رہا ہے جو اس کی اپنی فوج کے لیے سیاسی طور پر بہت مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک فلسطینی گروہ کے ذریعے امداد کی تقسیم کو کنٹرول کر کے، اسرائیل عالمی تنقید سے بچنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ امداد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ ساتھ ہی، یہ اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ امداد حماس کے ہاتھ نہ لگے اور اس کا فائدہ صرف ان لوگوں کو پہنچے جو اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ ہیں۔

فلسطینی ردعمل: غداری یا حقیقت پسندی؟

فلسطینی معاشرے کے اندر، یاسر ابو شباب اور اس جیسی ملیشیاؤں کا ظہور ایک انتہائی متنازعہ اور تکلیف دہ موضوع ہے۔ “تعاون” یا “عمالت” (اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کرنا) فلسطینی قومی بیانیے میں سب سے سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔ دہائیوں سے، قابض قوت کے ساتھ تعاون کرنے والوں کو غدار قرار دیا جاتا رہا ہے اور انہیں اکثر فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی طرف سے موت کی سزا دی جاتی رہی ہے۔

حماس اور دیگر مزاحمتی دھڑے ابو شباب کو ایک غدار اور اسرائیل کا ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ وہ اسے اپنی قومی جدوجہد کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیتے ہیں اور اسے ختم کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ ان کے لیے، یہ ملیشیا اسرائیل کے “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کے منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کو آپس میں لڑا کر ان کی مزاحمت کو کمزور کرنا ہے۔

تاہم، غزہ کے عام شہریوں کے درمیان تصویر قدرے پیچیدہ ہے۔ مہینوں کی بمباری، بھوک اور بے گھری نے بہت سے لوگوں کو مایوسی کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے، ابو شباب کی ملیشیا افراتفری کے عالم میں امید کی ایک کرن ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر یہ ملیشیا ان کے خاندانوں کے لیے خوراک اور تحفظ کو یقینی بنا سکتی ہے، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے حمایت کہاں سے مل رہی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت پسندی ہے جو بقا کی جدوجہد سے پیدا ہوئی ہے۔ ایک مقامی رہائشی کا کہنا تھا، “جب آپ کے بچے بھوکے ہوں، تو آپ یہ نہیں دیکھتے کہ روٹی کون دے رہا ہے، آپ صرف روٹی دیکھتے ہیں۔”

اس کے باوجود، اکثریت اب بھی اس طرح کے تعاون کو شبہ اور نفرت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ یہ غزہ کو چھوٹے چھوٹے جاگیردارانہ علاقوں میں تقسیم کر دے گا، جہاں مقامی جنگی سردار اسرائیل کی سرپرستی میں حکومت کریں گے۔ یہ نہ صرف فلسطینی قومی اتحاد کو تباہ کر دے گا بلکہ ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے خواب کو بھی ہمیشہ کے لیے دفن کر دے گا۔

مستقبل کا منظرنامہ: غیر یقینی اور خطرناک

یاسر ابو شباب اور اس کی ملیشیا کا مستقبل غیر یقینی اور خطرات سے بھرا ہوا ہے۔ سب سے بڑا خطرہ حماس کی طرف سے ہے۔ اگر اسرائیلی فوج کا دباؤ کم ہوتا ہے، تو حماس یقینی طور پر ان گروہوں کو نشانہ بنائے گی اور انہیں ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔ ابو شباب اور اس کے ساتھیوں کی زندگی ہر وقت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

دوسرا بڑا خطرہ خود اسرائیل سے ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل اپنے پراکسیز کو اس وقت ترک کر دیتا ہے جب وہ اس کے لیے مزید کارآمد نہیں رہتے۔ جنوبی لبنان آرمی (SLA) کی مثال سب کے سامنے ہے، جسے اسرائیل نے دو دہائیوں تک استعمال کرنے کے بعد 2000 میں اپنی فوجوں کے انخلاء کے بعد بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا۔ اگر اسرائیل کی سٹریٹجک ترجیحات تبدیل ہوتی ہیں، تو ابو شباب اور اس کا قبیلہ خود کو تنہا اور کمزور پا سکتا ہے۔

تیسرا چیلنج فلسطینی عوام کی حمایت کا حصول ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ بقا کے لیے اس ماڈل کو قبول کر سکتے ہیں، لیکن طویل مدت میں اسرائیل کے ساتھ تعاون پر مبنی کوئی بھی ڈھانچہ فلسطینی عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ قومی شناخت اور مزاحمت کا جذبہ فلسطینی معاشرے میں گہرائی تک پیوست ہے، اور اسے طاقت یا پیسے کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

اسرائیل کا یہ تجربہ کہ وہ غزہ پر قبائلی سرداروں کے ذریعے حکومت کرے، ایک خطرناک کھیل ہے۔ یہ خطے میں مزید عدم استحکام، بین القبائلی لڑائیوں اور ایک کبھی نہ ختم ہونے والے تنازعے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ “صومالیہ ماڈل” غزہ کو ایک ناکام ریاست میں تبدیل کر سکتا ہے، جو نہ صرف فلسطینیوں کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہو گا۔

نتیجہ

یاسر ابو شباب کا عروج غزہ کی جنگ کا ایک غیر متوقع اور پریشان کن نتیجہ ہے۔ وہ ایک ایسے شخص کی علامت ہے جو تاریخ کے ایک نازک موڑ پر طاقت، بقا اور غداری کے درمیان ایک باریک لکیر پر چل رہا ہے۔ اس کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ غزہ کا مستقبل صرف اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ سے طے نہیں ہوگا، بلکہ اس کا انحصار ان مقامی اداکاروں پر بھی ہوگا جو طاقت کے خلا میں ابھر رہے ہیں۔

کیا ابو شباب ایک نیا دور شروع کرنے والا ہے، جہاں مقامی قبائل اسرائیل کے ساتھ مل کر غزہ پر حکومت کریں گے؟ یا وہ تاریخ کے ان ان گنت کرداروں میں سے ایک ہے جنہیں بڑی طاقتوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور پھر فراموش کر دیا؟ اس کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا، لیکن ایک بات واضح ہے: غزہ ایک نئے اور نامعلوم دور میں داخل ہو چکا ہے، جہاں پرانے اصول ٹوٹ رہے ہیں اور طاقت کے نئے مراکز بن رہے ہیں۔ اس پیچیدہ اور غیر مستحکم منظر نامے کے نتائج نہ صرف غزہ کے 2.3 ملین عوام کے لیے، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے دور رس ہوں گے۔

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات