November 21, 2024


(ضـــیـــاء چترالی)
فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت (حــــمـــاس) کے سیاسی سربراہ اور سابق وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کو بدھ کی رات دو بجے ایران میں شہید کر دیا گیا۔ وہ نو منتخب ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے دوحہ سے تہران پہنچے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے ساتھی وسیم ابو شعبان بھی شہید ہوگئے۔ ابو العبد شہیدؒ کے جسد خاکی کو ان کے مرشد علامہ یوسف قرضاویؒ کے پہلو میں دفن کیا جائے گا۔ جمعہ کی نماز کے بعد دوحہ کی جامع مسجد امام عبد الوہاب میں جنازہ ہوگا۔ اس مضمون میں ہم شہید قائدؒ کی ولادت سے شہادت تک ذاتی زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ابو العبد اسماعیل عبدالسلام احمد ہانیہ 23 جنوری 1962 (یا 1963) کو غزہ کی پٹی میں الشاطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے خاندان نے مقبوضہ ضلع عسقلان کے گائوں الجورا سے ہجرت کرکے پناہ لی تھی۔ عسقلان فلسطین کی وہ قدیم اور مردم خیز بستی ہے، جہاں امیر المومنین فی الحدیث امام حافظ ابن حجر عسقلانیؒ جیسی نابغہ روز گار شخصیت نے جنم لیا اور یہ وہی عسقلان ہے جس کے بارے میں جناب نبی کریمؐ نے فرمایا تھا کہ “تمہارا بہترین جہاد رباط (سرحد کی پہرہ داری) ہوگا اور تمہارا بہترین رباط عسقلان ہوگا۔ ناجائز صہیونی ریاست نے اس علاقے پر قبضے کے بعد اس کا نام بھی تبدیل کرکے اشکلون رکھ دیا ہے۔
تعلیم و تربیت:
اسماعیل ہنیہ نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) کے اسکولوں میں پرائمری اور مڈل کی سطح کی تعلیم حاصل کی اور پھر الازہر انسٹی ٹیوٹ سے ہائی اسکول کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا، اس کے بعد انہوں نے 1987 میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور عربی ادب میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں اسی یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا۔ اپنی یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران، ہانیہ اسٹوڈنٹ یونین کونسل کے ایک فعال رکن کے طور پر ابھرے، اس کے علاوہ وہ 1992 میں اسلامی یونیورسٹی آف غزہ میں ڈین بننے سے پہلے کئی عہدوں پر فائز رہے۔ 1997 ء میں اسرائیل کی جانب سے رہائی کے بعد وہ شیخ احمد یاسین کے دفتر کے سربراہ کے طور پر کام کرتے رہے۔
سیاسی تجربہ:
اسرائیلی قابض حکام نے پہلی بار 1987ء میں فلسطینی انتفاضہ شروع ہونے کے بعد ہنیہ کو گرفتار کیا، وہ 18 دن تک جیل میں رہے، پھر 1988ء میں انہیں 6 ماہ تک دوسری مرتبہ حراست میں رکھا گیا۔ ہنیہ 1989 میں حــــــمـــــاس تحریک سے تعلق کے الزام میں دوبارہ اسرائیلی جیل چلے گئے۔ جہاں انہوں نے 3 سال حراست میں گزارے، اس کے بعد انہیں جنوبی لبنان کے علاقے مرج الظہور میں جلاوطن کر دیا گیا۔ تاہم وہ ایک ہی سال گزارنے کے بعد واپس غزہ کی پٹی لوٹ آئے۔ کیونکہ اس دوران اوسلو معاہدے پر دستخط ہوگئے اور ان کی جلاوطنی ختم ہوگئی۔ وطن واپسی کے بعد وہ غزہ اسلامی یونیورسٹی میں اسلامی بلاک کے سربراہ بن گئے۔ ہنیہ نے تبدیلی اور اصلاحات کی سیاست کا باقاعدہ آغاز کیا۔ انہوں نے جنوری 2006ء کے شروع میں منعقد ہونے والے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور فروری 2006ء میں حــــــمـــــاس کی طرف سے تشکیل دی گئی فلسطینی حکومت کے سربراہ یعنی وزیر اعظم بن گئے۔
قاتلانہ حملے:
اسماعیل ہنیہ پر کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے۔ 6 ستمبر 2003ء کے حملے میں ان کا ہاتھ زخمی ہو گیا تھا، جس میں حــــــمـــــاس کے کچھ رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا تھا، جن میں بانی تحریک شیخ احمد یاسین بھی تھے، جنہیں 14 اکتوبر 2006 کو بین الاقوامی دورے سے واپس آنے کے بعد غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ اسی طرح ہنیہ کے قافلے کو 20 اکتوبر 2006ء کو غزہ میں فتح اور حــــــمـــــاس کی تحریکوں کے درمیان مسلح تصادم کے دوران فائرنگ کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اسرائیل نے غزہ پر اپنی جنگوں میں ان کے قتل کی کوشش میں ان کے گھر کو کئی بار بمباری کا نشانہ بنایا۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے 14 جون 2007 کو اسماعیل ہنیہ کو اس وقت برطرف کر دیا تھا جب حــــــمـــــاس تحریک کے عسکری ونگ شہید عزالدین القسام بریگیڈز نے غزہ کی پٹی میں سیکورٹی سروسز کے مراکز کا کنٹرول سنبھال لیا تھا تاکہ امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کیا جا سکے۔ پٹی میں کئی مہینوں تک بدامنی کی صورت حال تھی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا اور غزہ میں قائم “ہنیہ حکومت” کو ختم کردیا۔ ہنیہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ قومی مفاہمت کا دروازہ کھولنے کے خواہاں تھے اور انہوں نے ایک جامع مفاہمت کے فریم ورک کے اندر برطرف حکومت کی صدارت سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا اور وہ قومی مفاہمت کی حکومت کی مخلوط حکومت پر راضی ہیں۔ نتیجے کے طور پر، 2 جون 2014 کو ایک نئی حکومت کا اعلان کیا گیا، جس کی سربراہی ماہر تعلیم رامی حمد اللہ نے کی، ہنیہ نے فلسطینی عوام کو نئی حکومت کے قیام پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا “آج میں رضاکارانہ طور پر حکومت ان کے حوالے کرتا ہوں اور اگلے مرحلے میں قومی اتحاد اور مزاحمت کی ہر شکل میں کامیابی کا خواہاں ہوں۔”
حــــــمـــــاس کی صدارت:
قطری دارالحکومت دوحہ اور غزہ میں ٹیلی ویژن لنک سسٹم (ویڈیو کانفرنسنگ) کے ذریعے بیک وقت انتخابات کے انعقاد کے بعد حــــــمـــــاس کی شوریٰ کونسل نے انہیں 6 مئی 2017ء کو اپنے سیاسی بیورو کے سربراہ کے طور پر منتخب کیا۔ حــــــمـــــاس کے متعدد رہنماؤں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے غزہ سے قطر ہنیہ کی قیادت میں سفر کرنا تھا، لیکن انتخابات سے پہلے کے دنوں میں رفح کراسنگ کی بندش سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ اناطولیہ نیوز ایجنسی کے مطابق انتخابات تین رہنماؤں کے درمیان ہوئے، یعنی اسماعیل ہنیہ، موسیٰ ابو مرزوق اور خالد مشعل کے نمائندے اور پولیٹیکل بیورو کے سابق رکن، محمد نازل کے۔
“دہشت گردی” کی فہرستوں میں:
31 جنوری 2018ء کو، امریکی محکمہ خارجہ نے اسماعیل ہنیہ کا نام “دہشت گردی کی فہرستوں” میں شامل کیا، یہ فیصلہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کی وجہ سے واشنگٹن اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی کے دوران سامنے آیا۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر تھا۔ حــــــمـــــاس نے اس فیصلے کو ’’مضحکہ خیز‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم بحیثیت فلسطینی، امریکا سے اچھے رویے کا سرٹیفکیٹ ڈھونڈ رہے ہیں۔
الاقصیٰ سیلاب:
عزالدین القسام بریگیڈز کے چیف آف اسٹاف محــــمـــد الـــضــیـــف نے 7 اکتوبر 2023ء کو آپریشن الاقصیٰ فلڈ کا اعلان کیا، جس میں زمینی، سمندری اور فضائی حملے اور کئی بستیوں میں مزاحمتی جنگجوؤں کی دراندازی شامل تھی۔ جس کے جواب میں اسرائیلی فوج نے غزہ کے خلاف ایک فوجی آپریشن شروع کیا اور اس کا آغاز پٹی پر شدید فضائی بمباری اور غلاف غزہ سے تمام آباد کاروں کو نکالنے کے ساتھ کیا گیا۔ قابض طیاروں نے لڑائی کے اگلے دن صبح غزہ کی پٹی میں متعدد اہداف پر حملے شروع کر دیئے۔ حــــــمـــــاس کے رہنماؤں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ 10 نومبر 2023ء کو اسرائیلی قابض طیاروں نے ہنیہ کی پوتی کو بمباری کرکے شہید کردیا، جب وہ ایک اسکول میں بے گھر لوگوں کو پناہ دے رہی تھی۔ تقریباً 10 دن بعد، ان کے گھر پر اسرائیلی فضائی حملے کے بعد ان کا بڑا پوتا شہید ہوگیا۔ یکم اپریل 2024ء کو اسرائیلی پولیس نے صحرائے نقب کے شہر بیر سبع کے قریب ہنیہ کی ایک بہن کو اس الزام میں گرفتار کیا کہ انہوں نے تحریک کے ارکان سے بات چیت کی تھی۔ اسرائیلی قبضے نے 10 اپریل 2024ء کو اسماعیل ہنیہ کے 3 بیٹوں کو بھی شہید کر دیا تھا۔ وہ اپنے 5 بیٹوں کے ساتھ ایک کار میں سوار ہو کر خاندانی رشتے داروں کو عید الفطر کی مبارکباد دینے جا رہے تھے۔ اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ ہنیہ کے بیٹوں کا قتل ایک ایسی کارروائی تھی جس کی منصوبہ بندی اندرونی سیکورٹی ایجنسی (شن بیٹ) نے کی تھی۔
گرفتاری کا حکم:
20 مئی 2024ء کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کریم خان نے اعلان کیا کہ انہوں نے عدالت میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس کے وزیر دفاع یوو گیلانٹ کے ساتھ ساتھ اسماعیل ہنیہ کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست جمع کرائی ہے۔ اس کے ساتھ مــحــمــد الـــضـــیـــف اور غزہ میں حــــــمـــــاس تحریک کے سربراہ، یحییٰ سنوار کو بھی اکتوبر 2023 کے واقعات کے بعد انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا۔ کریم خان نے کہا کہ اس بات پر یقین کرنے کی معقول وجوہات ہیں کہ سنوار، الضیف اور ہنیہ اسرائیل میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے ذمہ دار ہیں۔ اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے، حــــــمـــــاس تحریک کے ایک رہنما سمیع ابو زہری نے رائٹرز کو بتایا کہ آئی سی سی کا فیصلہ “متاثرہ اور جلاد کو برابر قرار دیتا ہے۔”
تہران میں شہادت:
بدھ، 31 جولائی 2024 کی صبح، حــــــمـــــاس نے ایرانی دارالحکومت تہران میں اسماعیل ہنیہ کے شہید ہونے کا اعلان کیا۔ حــــــمـــــاس نے ایک بیان میں کہا کہ تحریک کے رہنما تہران میں ان کی رہائش گاہ پر غدار صہیونیوں کے چھاپے کے نتیجے میں شہید ہو گئے۔ ایک اور بیان میں ایرانی پاسداران انقلاب نے کہا کہ “ہم تہران میں ہنیہ کی شہادت کے واقعے کے طول و عرض کا مطالعہ کر رہے ہیں اور ہم تحقیقات کے نتائج کا اعلان بعد میں کریں گے۔ ایرانی خبر رساں ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ ہنیہ اور ان کے ایک محافظ کو تہران میں ان کی رہائش گاہ کو نشانہ بنانے کے بعد شہید کر دیا گیا۔ ہنیہ ایرانی صدر مسعود کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران کے دورے پر تھے۔