رضوان احمد طارق
آج پوری دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی موجود ہیں وہ اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ یوم یک جہتیِ کشمیر منا رہے ہیں۔ بھارت نے ہر طرح سے یہ کوشش کی کہ کشمیریوں کی آزادی اور خودارادیت کی تحریک کا چہرہ مسخ کرکے اور اسے طرح طرح کے نام دے کر اور الزامات عائد کرکے بدنام کیا جائے۔
بھارت کی حکومتوں نے ہر دور میں اس مذموم کوشش کو ایک پالیسی کے طور پر اپنایا کہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی تناظر سے ہٹ کر علاقائی اور دو طرفہ سطح پر آجائے۔ اس کے لیے مقبوضہ کشمیر کے اندر بھی جبروتشدد کے ساتھ ترغیبات سے کام لیا گیا۔
بھارت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ تحریک آزادی کی سرگوشی بھی نہ سنی جاسکے۔ لیکن سلام ہے اُن ماؤں کے سپوتوں کو جنہوں نے بھارتی فوجیوں کی گولیوں سے شہید ہوتے ہوئے بھی آخری سانس تک کشمیر کی آزادی کا نعرہ لگایا۔ معصوم بچیوں نے اپنے چہروں پر بیلٹ گنز کے چھرّوں سے آزادی کی تحریک کے نقوش ثبت کرلیے اور بھارت پر ثابت کردیا کہ اس قوم کو ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنا کر نہیں رکھا جاسکتا۔
آج سے پچّیس برس قبل، یعنی پانچ فروری1990 کو ہم پاکستانیوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس دن کو بھرپور طریقے سے کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طور پر منائیں گے تاکہ کشمیریوں کو اعتماد دلایا جاسکے کہ پوری پاکستانی قوم ان کی پشت پر ہے۔ یوں پہلی مرتبہ 1990ء میں 5 فروری پاکستان کی حکومت، اپوزیشن، تمام سیاسی جماعتوں اور ہر عوامی پلیٹ فارم پر یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا گیا۔
اس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں بہت مثبت پیغام پہنچا اور بھارتی استبداد کے خلاف جذبے مزید جواں ہوگئے۔ اس کے بعد سے آج تک پانچ فروری کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کا قومی دن بن چکا ہے۔ ہر سال پانچ فروری کو پوری پاکستانی قوم گویا ریفرنڈم کردیتی اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور عالمی سطح پر یہ پیغام پہنچتا ہے کہ کشمیری اس جدوجہد میں تنہا ہیں اور نہ پاکستانی رائے عامہ کو نظر انداز کرکے پاکستان کی حکومتوں سے کسی فیصلے پر انگوٹھا لگوایا جاسکتا ہے۔
نریندر مودی نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں5اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی۔ مودی حکومت نے بھارت کے آئین میں آرٹیکل 370کی شکل بگاڑ کر مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی دھجّیاں بکھیر دیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے پرزے کر کےانہیں ہوا میں اُڑادیا تھا۔
صرف یہ ہی نہیں ہوا کہ مودی سرکار نے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 135اے کو ختم کرکے کشمیری عوام کی گردن پر اپنے پنجے گاڑدیے تھے، بلکہ اس نے یہ فیصلہ کرلیا کہ مقبوضہ کشمیر اب متنازع اور تصفیہ طلب ریاست نہیں بلکہ وفاقی علاقہ کہلائے گا، کیوں اس نے مقبوضہ کشمیر کو کیک سمجھ کر ہڑپ کرنے کی ناپاک کوشش کی اور دھوکے میں لپیٹ کر لولی پوپ دیا کہ مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو دوحصّوں میں تقسیم کرکے وادی جمّوں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لداخ کو بھی وفاقی یونین کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیا۔ بھارتی پارلیمان، راجیہ سبھا نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370اور 135اے ختم کر کے دنیا بھر کے انسانی حقوق کے علم برداروں کو اپنا اصل چہرہ دکھادیا۔ اس فیصلے کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں مزاحمت جاری ہے۔
کشمیر کے چُنار دنیا کے وہ واحد درخت ہیں جو سات دہائیوں سے آگ کی لپیٹ میں ہیں، لیکن ہر طرح کی آزادیوں کی حمایت کرنے والے نام نہاد جمہوری ممالک اور ادارے یہ آگ بجھانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کر رہے۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانا تنازع ہے جس کے بارے میں اس ادارے میں خود بھارت کے آں جہانی وزیراعظم، پنڈت جواہر لال نہرو نے استصواب رائے کی بات کی تھی اور جس کے بارے میں یہ ادارہ متعدد بار قراردادیں منظور کر چکا ہے۔
تاہم لاکھوں جانوں کی قربانیاں دینے اور ہر طرح کے مصائب و آلام برداشت کرنے کے باوجود کشمیریوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کاحق نہیں ملا۔ حالاں کہ تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر کا خطہ اپنی تاریخ کے بیش تر ادوار میں آزاد رہا ہے۔
ریاست جمّوں و کشمیر تیسری صدی قبلِ مسیح سے بیسویں صدی عیسوی تک
ریاست جمّوں و کشمیر تیسری صدی قبل مسیح میں موریا سلطنت، سولہ تا اٹھارہ صدی عیسوی میں مغلیہ سلطنت اور انیسویں صدی عیسوی کے وسط سے بیسویں صدی کے وسط تک برطانوی کالونی کا حصہ رہی۔ 1846ء تک یہ سکھوں کی سلطنت میں شامل تھی، لیکن اس برس انگریزوں نے سکھوں کو شکست دے کر اسے جمّوں کے ایک سکھ، گلاب سنگھ کے ہاتھوں75لاکھ روپے میں فروخت کردیا تھا۔
یہ معاہدہ امرتسر، گلاب سنگھ معاہدے کے نام سے مشہور ہوا۔ بعد میں ریاست کے مہاراجا نے انگریزوں سے ایک اور معاہدہ کیا جس کی رُو سے انگریزوں نے خطۂ کشمیر کو خود مختار نوابی ریاست تسلیم کر کے مہاراجا کو اس کے حکم راں کا درجہ دے دیا تھا۔ گلاب سنگھ کے 1857ء میں دنیا سے رخصت ہونے کے بعد رنبیر سنگھ ریاست کا حکم راں بنا اور پھر پرتاب سنگھ اور ہری سنگھ نے ریاست کا اقتد ار سنبھالا۔
یہ سلسلہ 1949ء تک چلا۔ گلاب سنگھ اور اس کے بعد آنے والے مہاراجوں نے ریاست پر بہت ظالمانہ ا نداز میں حکومت کی۔ اس وقت بھی کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کا تقریباً 80 فی صد تھی لہٰذا اس طبقۂ آبادی نے ہری سنگھ کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ لیکن 1931ء میں ہری سنگھ نے اس بڑی عوامی تحریک کو بہت بے دردی سے کچل دیا۔ 1932ء میں شیخ عبداللہ نے کشمیر کی تاریخ کی پہلی سیاسی جماعت، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے نام سے بنائی جس کا نام 1939ء میں تبدیل کرکے نیشنل کانفرنس رکھ دیا گیا تھا۔
بھارت کی خفیہ دراندازی
ریاست کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے مہاراجا نے 1934ء میں محدود جمہوریت کی اجازت ریاست کی قانون ساز اسمبلی کی صورت میں دی۔ اس کے باوجود لوگوں میں مہاراجا کے خلاف نفرت موجود رہی۔ ہندوستان کی تقسیم کے وقت اس ریاست کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ چاہے تو الحاق کے لیے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرسکتی ہے یا اپنی خود مختار حیثیت برقرار رکھ سکتی ہے۔
تاہم اسے یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ لسانی اور جغرافیائی امور کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی قریبی ملک سے الحاق کرلے۔ لیکن مہاراجا اُس وقت اس بارے میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے ہچکچا رہا تھا۔ پھر ریاست کے مسلمانوں نے وہاں خفیہ انداز میں بھارتی فوجی آتے دیکھے توان کے جذبات بھڑک اٹھے اور معاملات مہاراجا کے ہاتھ سے نکل گئے۔ کشمیر کے باسی پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ایسے میں مہاراجا کو قبائلی جنگ سے خطرہ تھا۔ان حالات میں بھارت کو مہاراجا پر دباؤ بڑھانے کا موقع ملا اور اس نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
پانچ فروری: یومِ یک جہتی کشمیر
نام نہاد معاہدہ اور استصوابِ رائے کا وعدہ
اگرچہ بھارت یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ریاست کا اس کے ساتھ الحاق26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجا کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت ہوا، لیکن دنیا جانتی ہے کہ وہ نام نہاد معاہدہ کیسے ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ریاست کو بھارت میں زبردستی شامل تو کرلیا گیا تھا، لیکن اس وقت خود بھارت کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ بعد میں وہ وہاں آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کرائے گا۔
27 اکتوبر 1947ء کو بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے مہاراجا کو خط لکھا گیا جس میں الحاق کی منظوری دیتے ہوئے ماؤنٹ بیٹن نے واضح کیا تھا کہ کشمیر کے عوام سے ان کی رائے پوچھنے کے بعد ہی ریاست کو بھارت کا حصہ بنایا جائے گا۔ بھارت نے عیاری سے اس وقت اصولی طور پر استصواب رائے کی بات قبول کرلی تھی، لیکن بعد میں اس نے ہر موقعے پر کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔
کشمیری عوام کی بغاوت اور بھارت کا اقوامِ متحدہ میں جانا
بھارت کی جانب سے ریاست کشمیر کو زبردستی اپنا حصہ بنانے کے خلاف کشمیری عوام اور قبائلی رضاکاروں نے علم بغاوت بلند کیا تو بھارتی فوج کُھل کر ان کے سامنے آگئی۔ ان حالات میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ شروع ہوگئی۔
جنگ کے دوران یہ بھارت تھا جو پہلی مرتبہ مسئلہ کشمیر کو لے کر یکم جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ میں گیا۔ یکم جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ کی مداخلت پر دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر ہوا اور سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔
اقوام متحدہ کی جانب سے 21 اپریل 1948ء کو منظورکی جانے والی قرارداد اس مسئلے کے بارے میں اقوام متحدہ کی بنیادی قرارداد کہی جاتی ہے۔ اس قرارداد میں کہا گیا تھا: ’’بھارت اور پاکستان دونوں کی یہ خواہش ہے کہ ریاست کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مسئلہ جمہوری طریقے سے حل کیا جائے، یعنی آزادانہ اور غیر جانب دارانہ استصواب رائے کے ذریعے‘‘۔
اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے بھارت اور پاکستان کے لیے کمیشن نے بھی اپنی قرارداد میں یہ ہی موقف اختیار کیا۔ پھر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی 3اگست 1948ء اور5جنوری 1949 ء کی قراردادوں نے بھی مذکورہ کمیشن کے موقف کی توثیق کی۔
انگریزوں نے ریاست کی تباہی کی بنیاد رکھی
ریاست کشمیر کبھی بہت خوش حال اور پرامن تھی۔ اس کے بُرے دن اس وقت شروع ہوئے جب انگریزوں نے 1846ء میں اسے ایک ایسے ہندو جنگ جُو کے ہاتھوں فروخت کیا جس کی اس علاقے میں کوئی جڑیں نہیں تھیں۔ انگریزوں نے کشمیر اور اس کے عوام کو کسی جائیداد کی طرح فروخت کیا تھا جس کے لیے وہاں کے باسیوں سے ان کی رائے نہیں لی گئی تھی۔
لیکن یہ خریداری کرنے کے بعد گلاب سنگھ نے خود کو ریاست کا مہاراجا قرار دے دیا اور ظالمانہ انداز میں حکومت کرنے لگا۔ اس کے دور میں متعدد مساجد پر قبضہ کرلیا گیا اور بہت سی مساجد کو بہ زور طاقت بند کرا دیا گیا۔ گائے ذبح کرنا جرم قرار دیا گیا جس کی سزا موت تک تھی۔ بعد میں آنے والے مہاراجوں نے بھی گلاب سنگھ کی پالیسی اپنائی اور ریاست کی 94فی صد آبادی، یعنی مسلمانوں کے خلاف شدید امتیازی رویہ روا رکھا گیا۔
ان حالات سے تنگ آکر 1931ء میں کشمیریوں نے پہلی مرتبہ ایک منظم مظاہرہ کیا جس نے آگے چل کر 1946ء میں ’’کشمیر سے نکل جاؤ‘‘ تحریک کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اگلے ہی برس اس تحریک نے’’ آزاد کشمیر تحریک‘‘ کی شکل اختیار کرلی تھی۔
اس سے قبل 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایک ایسی آزاد ریاست تشکیل دی جائے جس میں وہ تمام علاقے شامل ہوں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ لفظ پاکستان میں ’’ک‘‘دراصل کشمیر کی نمائندگی کرتا ہے۔
پھر 26 جولائی 1946ء کو مسلم کانفرنس نے آزاد کشمیر کی قرارداد منظور کی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس علاقے سے مطلق العنانیت ختم کی جائے اور کشمیریوں کو اپنی قانون ساز اسمبلی کا انتخاب کرنے کا حق دیا جائے۔
پانچ فروری: یومِ یک جہتی کشمیر
کشمیری پہلی مرتبہ ہتھیار اٹھاتے ہیں
اگست 1947ء میں کشمیریوں نے پہلی مرتبہ ہتھیار اٹھائے اور مہاراجا کے سپاہیوں کو للکارا۔ حالات کو بگڑتا دیکھ کر مہاراجا 25 اکتوبر 1947ء کو جموں بھاگ گیا کیوں کہ اس کے خلاف اٹھنے والی تحریک روز بہ روز طاقت پکڑتی جارہی تھی۔ جموں پہنچ کر اس نے بھارت سے رابطہ کیا اور بھارتی حکومت سے یہ وعدہ کیا کہ اگر اس نے اس موقعے پر مہاراجا کی عسکری مدد کی تو وہ اس کے بدلے میں بھارت سے الحاق کا معاہدہ کرلے گا۔
پھر یہ نام نہاد معاہدہ ہوا۔ مگر قائداعظم نے یکم نومبر 1947ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات میں کہہ دیا تھا: ’’کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق جائز نہیں ہے کیوں کہ اس کی بنیاد دھوکہ دہی اور تشدد پر رکھی گئی ہے۔‘‘
جواہر لال نہرو کی 2نومبر 1947ء کی تقریر
آج بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتے ہوئے اپنے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی 2نومبر 1947ء کو آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہونے والی تقریر کو بھول جاتا ہے۔ اس تقریر میں نہرو نے بھارتی حکومت کے اس وعدے کو دہرایا تھا جو اس نے کشمیریوں سے کیا تھا۔ یعنی کشمیریوں کو استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینا۔
انہوں نے کہا تھا: ’’ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ حتمی طور پر کشمیر کے عوام ہی کریں گے۔ ہم نہ صرف جموں اور کشمیر بلکہ تمام دنیا سے یہ وعدہ کرچکے ہیں اور مہاراجا نے اس کی حمایت کی ہے۔ ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور نہ ہٹیں گے۔ جب امن و امان بہ حال ہوجائے تو ہم عالمی نگرانی میں، جیسے اقوام متحدہ، ریفرنڈم کرانے کے لیے تیار ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ یہ عوام کی جانب سے شفاف اور منصفانہ ریفرنس ہو اور ہمیں ان کا فیصلہ قبول ہوگا۔‘‘ لیکن بھارت نے اس کے برعکس کیا۔ اس نے مہاراجا کے ساتھ سازش کرکے اپنی فوج ریاست میں داخل کردی جس کے بعد آزادی کے متوالوں سے بھارتی فوج کی جھڑپیں ہونے لگیں۔ حریت پسندوں نے بھارتی مداخلت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ریاست کا ایک تہائی حصہ آزاد کرانے میں کام یاب رہے۔
اقوامِ متحدہ کا بھارت کو واضح پیغام
حریت پسندوں کی مزاحمت کی شدت کو دیکھتے ہوئے بھارتیوں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ طاقت کے ذریعے یہ تحریک نہیں دبا سکتے۔ چناں چہ بھارت جنوری 1948ء میں یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا۔ ریاست میں بھارت کی فوجی مداخلت کے خلاف ہونے والی جدوجہد میں پاکستان سے جانےوالے رضا کار بھی شامل ہوگئے تھے جس پر بھارت نے پاکستان پر یہ الزام لگانا شروع کردیا تھا کہ پاکستان مسلح حملہ آوروں کو ریاست کشمیر بھیج رہا ہے۔
پھر دونوں ملکوں میں جنگ ہوئی اور سیز فائر ہوا۔ بعد میں بھارت نے اپنے زیرِ قبضہ کشمیر میں دوسرا ڈراما شروع کردیا یعنی مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی تشکیل۔ بھارت کے اس عمل کے خلاف 24جنوری 1957ء کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے اپنی 1948ء کی قرارداد میں اختیار کیے گئے موقف کا اعادہ کیا اور واضح کیا کہ بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں تشکیل دی گئی قانون سازا سمبلی کی جانب سے کیا گیا کوئی بھی عمل مذکورہ قرارداد کے اصولوں کی روشنی میں ریاست کی پوزیشن تبدیل نہیں کرسکے گا۔
پانچ فروری: یومِ یک جہتی کشمیر
بھارت کی ہٹ دھرمی اور حقیقت کا اعتراف
ان تمام باتوں اور وعدوں کے باوجود بھارت کشمیر اور کشمیریوں کے خلاف سازشیں کرتا رہا۔ اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر 5فروری 1964ء کو اقوام متحدہ میں بھارت کے نمائندے نے سیکیورٹی کونسل میں کہا: ’’میں اپنی حکومت کی جانب سے یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم کسی بھی صورت میں کشمیر میں استصواب رائے کرانے پر تیار نہیں ہوسکتے‘‘۔
بعد میں اس وقت کے بھارتی وزیر دفاع کرشنن مینن نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا : ’’ کشمیر پاکستان کے حق میں ووٹ دے گا اور استصواب رائے کرانے پر تیار ہونے والی کوئی بھی بھارتی حکومت ٹک نہیں سکے گی۔‘‘
بھارت کا اشتعال انگیز اقدام اور جنگِ ستمبر
بھارت استصواب رائے کرانے کے وعدے سے مکرنے کے بعد اور آگے بڑھا اور مارچ 1965ء میں بھارت کی پارلیمان نے ایک بل منظور کیا جس میں کشمیر کو بھارت کا ایک صوبہ قرار دے دیا گیا۔ بھارت کے اس اقدام پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھی اور دونوں طرف کے کشمیریوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔
ایسے میں اگست 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر درانداز بھیجنے کے الزامات عاید کیے اور پھر اس کی فوج نے کشمیر میں سیز فائر لائن عبور کرلی۔ 6 ستمبر کو بھارت کی افواج نے بین الاقوامی سرحد عبور کرکے پاکستان پر حملہ کردیا اور لاہور پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔
سیز فائر اور معاہدۂ تاشقند
23ستمبر کو اقوام متحدہ کی مداخلت پر سیز فائر ہوا۔ اس کے بعد سابق سوویت یونین نے بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کیا اور اس وقت کے سوویت یونین کے وزیراعظم ایلکس کوسیگن کی کوششوں سے معاہدۂ تاشقند ہوا۔
اس معاہدے میں دونوں ملکوں کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ مسئلہ پرامن طریقے سے حل کیا جائے گا اور دونوں ملکوں کی افواج اپنی پہلے والی پوزیشنز پر واپس چلی جائیں گی۔ 2 جولائی 1972ء کو دونوں ملکوں نے پھر ایک معاہدہ کیا جو شملہ معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس معاہدے میں دونوں ملکوں کے درمیان موجود تمام تنازعات نمٹا کر پائے دار امن کے قیام کی بات کی گئی تھی۔ اس معاہدے میں کہا گیا تھا کہ جموں اور کشمیر کے مسئلے کا حتمی حل تلاش کیا جائے گا۔ لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی نے مسئلۂ کشمیر کو مزید گمبھیر بنا دیا۔
1987ء : نئے عزم کے ساتھ مزاحمت کا آغاز
ان حالات میں کشمیری حریت پسندوں نے 1987ء میں نئے عزم کے ساتھ مزاحمت کا آغاز کیا۔ اس تحریک کی ابتداء کشمیر کے حکم رانوں کی نا اہلی، بدعنوانیوں اور مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خلاف مظاہروں سے ہوئی تھی۔
جب ان مظاہروں میں شدت آئی اوریہ بھارت کے خلاف تحریک مزاحمت میں تبدیل ہوگئے تو 19جنوری 1990ء کو بھارتی حکومت نے کشمیر کو بہ راہ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا، ریاست کا قانون ساز ادارہ معطل اورحکومت ختم کردی گئی۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ بھارت کی خفیہ سروس ’’را‘‘ کے سابق ڈائریکٹر جنرل جگ موہن کو ریاست کا گورنر نام زد کردیا گیا۔
لیکن اس کے اگلے ہی روز مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر بھارت کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ بھارت کی افواج کے ہاتھوں اس روز 30 کشمیری شہید کردیے گئے اور ریاست کے بیش تر شہروں میں امن وا مان کی خراب صورت حال کی وجہ سے کرفیو نافذ کرنا پڑا۔
مگر حالات سدھرنے کے بجائے بگڑتے ہی چلے گئے اور 25 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے سرکاری ملازمین بھی مظاہروں میں شامل ہوگئے۔ 27فروری کو عالمی دباؤ پر اقوام متحدہ کے نمائندوں نے مقبوضہ کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے وہاں جانا چاہا تو بھارت نے انہیں اس دورے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
پانچ فروری: یومِ یک جہتی کشمیر
مظالم کی نئی داستان کا آغاز
بھارتی فوج کی بربریت بڑھنے لگی تو بہت سے کشمیریوں نے 28 مارچ 1990ء سے مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر کی طرف ہجرت شروع کردی۔ واضح رہے کہ 27 فروری کو سری نگر میں دس لاکھ سے زاید افراد بھارت کے خلاف نکلے تھے۔ اس موقعے پر بھارتی پولیس کو دیکھتے ہی گولی ماردینے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔
لہٰذا اس موقعے پر40 نہتے کشمیریوں کو شہید کردیا گیا تھا۔ وہ واقعہ بہت سے کشمیریوں کے لیے دہشت کی علامت بن گیا تھا۔ مگر حریت پسندوں کے حوصلے پھر بھی پست نہیں ہوئے تو10اپریل کو بھارت کے وزیراعظم نے جنگ کی دھمکی دیتے ہوئے کہا: ’’ہم اس و قت تک نہیں رکیں گے جب تک اپنے مقاصد حاصل نہ کرلیں‘‘۔
کرشنا راؤ کا گھناونا اعتراف
جولائی 1990ء میں بھارت کی پارلیمان نے جموں اینڈ کشمیر ڈسپیوٹیڈ ایریا ایکٹ منظور کیا جس کے تحت بھارت کی سیکیورٹی فورسز کو کشمیریوں کے خلاف کارروائی کے غیر معمولی اختیارات مل گئے۔ 20 جنوری 1995ء کو بھارت نے مسئلے کے حل کا ایک اور دروازہ بند کرتے ہوئے تیسرے فریق کی ثالثی کو رد کردیا۔
16ستمبر 1996 ء کو مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا ڈھکوسلہ کیا گیا جس کا بھانڈا عالمی ذرایع ابلاغ نے پھوڑ دیا (گزشتہ برس بھی انتخابات کا ایک اور ڈھونگ رچایا گیا)۔ 27سمبر 1997ء کو خصوصی قوانین کی منظوری دی گئی جس کے تحت سیکیورٹی فورسز کو مظالم کی مزید چھوٹ ملی۔ 19مارچ 1998ء کو مقبوضہ کشمیر کے گورنر کرشنا راؤ نے قبول کیا کہ بھارتی افواج کشمیر میں قتل عام کی ذمے دار اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔
بھارت کی قلابازیاں، دھونس، دھمکی کچھ کام نہ آیا
کشمیریوں کی نئی تحریک مزاحمت شروع ہونے سے اب تک بھارت نے بہت سی قلابازیاں کھائیں، بہت سے ڈھونگ مذاکرات ہوئے، کبھی جوہری دھماکوں کے ذریعے پاکستان اور کشمیریوں کو دھمکانے اور کبھی کشمیریوں کو مراعات دے کر ساتھ ملانے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن کشمیریوں کی تحریک آزادی جاری رہی۔ برہان وانی کی شہادت نے اس میں نئی روح پھونکی۔
بھارت کی جانب سےتقریبا پانچ برس قبل مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے ناجائز طور پر بھارت کا حصّہ بنانے کے اقدام کے باوجود کشمیری عوام تحریکِ آزادی کسی بھی صورت میں ترک کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ پانچ اگست کے اقدام سے آج تک مقبوضہ کشمیر کے بیش تر حصوں میں حالات معمول کے مطابق نہیں ہیں اور وہاں طویل عرصے تک کرفیو نافذ رہا ہے۔ یہ بات بھارت کو بھی بہ خوبی پتا ہے کہ وہ زیادہ دیر تک کشمیریوں کومحکوم بناکر نہیں رکھ سکتا۔